تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ممکن ہےکہ ریفرنس واپس بھیج دیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

آج اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس سے متعلق اپنے دلائل دئیے اس دوران انہیں ججز صاحبان کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63اے نشست خالی ہونےکاجواز فراہم کرتا ہے، کیا آرٹیکل 63اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگےگا؟

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنےکےبعد استعفیٰ دیدے تو کیاہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت میں ایک رکن نےپارٹی کےخلاف ووٹ دیکراستعفیٰ دیاتھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیاتھا، پارٹی سےانحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوٹوں کی سپورٹ کرنےوالا میں آخری شخص ہوں گا، پارٹی سےانحراف کرنے والےکےخلاف الیکشن کمیشن موجودہے،کوئی چوری کرنے والےکا ساتھ جائےتو کیاہوگا؟صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیاہےجو رائےمانگ رہےہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہےجس پر سوال پوچھے؟۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ صدر پاکستان نےآئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سےادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں، بعد ازاں کیس کی سماعت پیر کی دوپہر 1 بجے تک ملتوی کردی گئی، اٹارنی جنرل پیر کو اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل اور معزز ججز صاحبان کے ریمارکس

  اس سے قبل سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ  پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پرملتی ہیں، ان ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفاداررہنا ہے یا نہیں تاہم خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کاپابند رہے گا؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کیاممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتاہےکہ ڈسپلن کا پابند رہےگا، اگرپارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہےتوخلاف ورزی خیانت ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہناہےیا نہیں لیکن خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم نےاپنےعہدےکاحلف اٹھایاہوتاہے، کیا کوئی رکن وزیراعظم پرعدم اعتمادکا اظہارکرسکتا ہے؟ اگروزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا رکن قومی اسمبلی پھرساتھ دینےکاپابندہے؟

جس پر اٹارنی جنرل نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے جبکہ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ووٹرانتخابی نشان پرمہرلگاتےہیں کسی کےنام پرنہیں، پارٹی نشان پر الیکشن لڑنےوالےجماعتی ڈسپلن کےپابند ہوتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -