تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

داعش کوافغانستان میں مجاہدین کی اولین پسند بنےرہنے میں مشکلات کا سامنا

شام اور عراق میں دفاعی پوزیشن پر جانے والی دولت اسلامیہ نے افغانستان کو اپنا نیا مسکن بنا کر صوبے خراسان میں خلافت کا اعلان بھی کیا جب کہ ننگر ہار میں بھی داعش نے گرفت حاصل کر لی ہے.

داعش کی کامیابی کے پیچھے مقامی طالبان اور القاعدہ قیادت سے منحرف افغان اور پاکستانی مجاہدین تھے جنہوں نے دو سال قبل دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

’’ تا ہم اب افغان و پاکستان مجاہدین داعش سے کنارہ کشی اختیار کرکے دوبارہ طالبان اور القاعدہ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں جس سے داعش کو افغانستان اور پاکستان کے مجاہدین کی اولین پسند بنے رہنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘‘۔

ایک اندازے کے مطابق صوبہ ننگرہار میں داعش کے کئی جنگجوؤں کا تعلق پاکستان کی اورکزئی ایجنسی سے ہے، جنہوں نے رواں برس کے اوائل میں داعش میں شمولیت اختیار کی تھی جب کہ 70 فیصد ٹی ٹی پی کے اورکزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین بھی داعش میں شامل ہو گئے تھے۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک اعلٰی امریکی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش میں موجود 70 فیصد جنگجوؤں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے، جو ملک سے بے دخل کئے جانے کی بناء پر داعش کا حصہ بن گئے تھے۔

واشنگٹن میں پینٹاگون میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل نکولسن کا بھی یہی کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ، خراسان صوبہ میں زیادہ تر ارکان کی اکثریت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن ضرب عضب کے دوران ملک سے باہر جانے پر مجبور ہوئے تھے۔

داعش امریکہ کی جانب سے عالمی طور پر نامزد کی گئی دہشت گرد تنظیموں میں سے صرف ایک ہے، اس کے علاوہ شدت پسند تنظیمیں افغان طالبان،پاکستانی طالبان.القاعدہ اوراسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی افغانستان میں کام کر رہی ہیں۔

پاکستانی اور افغانی طالبان سمیت اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے جنگجو اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مجاہدین تیزی سے داعش میں شمولیت اختیار رہے تھے تا ہم اب یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے اور جنگجو اپنی سابقہ جماعتوں میں واہس جا رہے ہیں۔

دوسری جانب محض دوسال قبل داعش مجاہدین کے لیے ایک پرکشش نام تھا جو لبرل اور سیکولر اداروں اور شخصیات کو نشانہ بناتی ہے اور اپنے متشدد نظریات کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے مجاہدین خلافت اسلامیہ کے امیر ابو بکر بغدادی کے ہاتھوں پربیعت کرنے لگے۔

’’داعش سے واپس اپنی بنیادی تنظیم میں منتقلی کی تازہ ترین مثال جماعت الاحرار ہے جس نے پاکستان تحریک طالبان سے اختلاف کے بعد داعش میں شمولیت اختیار کی اور امیر ابوبکر بغدادی کے ہاتھوں 2014 میں بیعت بھی کی تھی‘‘۔

تا ہم چند ماہ قبل ہی جماعت الاحرار نے دوبارہ سے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیارکرلی اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری میں بہ طور ’’جماعت الاحرار تحریک طالبان پاکستان ‘‘ کے نام سے قبول کی۔

Comments

- Advertisement -