تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

مغربی میڈیا میں مسلمانوں کی منفی تصویرکشی سے نفرت میں اضافہ ہوا،برطانوی صحافی

لندن :برطانوی صحافی نے کہاہے کہ مغربی میڈیا میں مسلسل مسلمانوں کی منفی تصویر کشی سے ان کے خلاف نفرت اور اسلامو فوبیا میں اضافہ ہورہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق برطانیہ سے تعلق رکھنے والی صحافی، براڈ کاسٹر اور متحرک رضاکار اور’ فائنڈنگ پیس ان دا ہولی لینڈ‘ نامی کتاب کی مصنفہ لورین بوتھ نے کہاکہ مسلمانوں کا حقیقی مقصد اپنے عقیدے پر قائم رہنا اور کسی بھی قسم کے تشدد کا سامنا کرنے پر بھی اس سے پیچھے نہ ہٹنا ہے۔

انہوں نے بارہا استعمال ہونے والی اصطلاح تہذیبوں کا تصادم کو انتہائی نامناسب قرار دیا اور کہا کہ اسلام کا مقصد کبھی بھی تہذیبوں کے درمیان تصادم کروانے کا مقصد نہیں رہا بلکہ اسے کم کرنا اور تہذیبوں کا میعار بہتر بنانا ہے۔

اس کے ساتھ انہوں نے عالمی سطح پر مسلمانوں کہ بری تصویر پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا میں استعمال ہونے والے حربوں کا بھی ذکر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ معلومات کے ذرائع مثلاً اخبارات، ٹی وی چینلز، فلمز، کارٹونز اور اب ویڈیو گیمز کو بھی نفرت آمیز پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب میں لوگوں کو اسلام کی بنیادی معلومات حاصل نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے انہیں فہم ہے کیوں کہ انہیں آج تک سچے طریقے سے اس سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔اس موقع پر انہوں نے اپنے گھر کے ملبے کے ساتھ کھڑے فلسطینی بچوں کے انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں وہ اپنی عوام کے لیے ڈاکٹر، ٹیچر اور سائیکوتھراپسٹ بننے کی خواہش کا اظہار کررہے تھے۔

لورین بوتھ کے مطابق اس انٹرویو کو بعد میں توڑ مڑوڑ کے پیش کیا گیا اور ہیڈلائن میں ایک بالکل متضاد سوال پیش کیا گیا جو یہ تھا کہ ان میں سے کون سا بچہ ڈاکٹر بنے گا اور کون دہشت گرد؟لورین بوتھ نے بتایا کہ اہم بات یہ ہے کہ اس انٹرویو میں کسی بچے نے دہشت گردی، انتہا پسندی یا انتقام کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہی تھی۔

اپنے خطاب کے اختتام میں انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ مزید ایسے لوگ آگے آئیں جو اسلام کا صحیح رخ پیش کرنے کے لیے عوام کے سامنے بول سکیں۔اس کے علاوہ انہوں نے مسلمان بچوں کے اس قابل ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ وہ اسلام کو ایک مثبت اور بہتر زندگی کی راہ کے طور پر سمجھ سکیں۔

Comments

- Advertisement -