تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

معرکۂ امبیلا

کالا پانی جعفر تھانیسری کی قید و بند کی سرگذشت ہے جس سے ہم ان پر ٹوٹنے والی ایک افتاد یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ جعفر تھانیسری نے برطانیہ کے خلاف ‘غداری’ کے الزامات کے تحت بیس سال انڈمان جزائر میں قید کاٹی تھی۔

وہ اپنی کتاب میں‌ "معرکۂ امبیلا” کے باب میں‌ رقم طراز ہیں:
1863ء بمطابق 1280ھ کے آخر کی بات ہے کہ مغربی ہند کی سرحد کے قریب انگریزی سرکار کی زبردستی کی وجہ سے ایک عظیم جنگ شروع ہو گئی۔ جنرل چیمبرلین صاحب اس جنگ کے سپہ سالار تھے۔ امبیلے کی گھاٹی میں پہنچ کر سرکاری فوج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بیگانے ملک میں سرکار کی بے جا مداخلت کو دیکھ کر ملا عبد الغفور صاحب اخوند سوات بھی اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر آموجود ہوئے، ملکی خواتین اور افغان بھی اپنے بچاؤ کے لیے چاروں طرف سے سرکار پر ٹوٹ پڑے اور مجاہدین کا وہ قافلہ اس کے علاوہ تھا جن کی سرکوبی اور نیست و نابود کرنے کے لیے چڑھائی کی تھی۔

الغرض بدعویٔ حفاظتِ خود اختیاری ہر کس و ناکس سرکار کے مقابل کھڑا ہو گیا۔ مجاہدین نے حصولِ شہادت کے جذبہ سے سرشار ہو کر شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھلائے، یہ ہنگامۂ جنگ و جدل دو تین مہینے جاری رہا، اور تقریبا سات ہزار کشت و خون میں تڑپ گئے۔ خود جنرل چیمبرلین شدید مجروح ہوئے۔ پنجاب کی تمام چھاؤنیوں کی فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا تھا۔

ادھر یہ ہنگامہ برپا تھا ادھر لارڈ ایلجن وائسرائے ہند اپنی اس حرکت پر نادم ہو کر راہیٔ ملکِ عدم ہوا اور ہندوستان بے گورنر ہو گیا۔

واقعات کے اسی تسلسل میں‌ جعفر تھانیسری "سازش کا انکشاف” کے عنوان سے لکھتے ہیں:
ایسے نازک وقت میں 11 دسمبر 1863ء بمطابق 28 جمادی الثّانی 1280ھ کو ایک ولایتی افغان غزن خان نے جو کہ پانی پت ضلع کرنال کی چوکی میں بطور پولیس سوار متعین تھا، کسی ذریعہ سے میرے حالات معلوم کیے اور اپنے دُنیوی فائدے کی خاطر ایک لمبی چوڑی اور جھوٹی داستان ڈپٹی کمشنر کرنال کو سنائی اور کہا کہ سرحد پر ہندوستانی مجاہدین سے لڑی جانے والی جنگ میں تھانیسر کا نمبر دار محمد جعفر مجاہدین کی روپیہ اور آدمیوں سے مدد کر رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے یہ داستان سنی تو بذریعہ تار ضلع انبالہ میں خبر بھیج دی؛ کیوں کہ ہمارا شہر تھانیسر اسی ضلع میں واقع ہے۔

مخبر داستان سرائی کر کے باہر نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ڈپٹی کمشنر کرنال کی ملاقات کے لیے ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے، جن سے گفتگو کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اس مخبری کا ذکر بھی کیا۔ ملاقات کے بعد جب وہ دوست اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ایک نوکر کاوا نامی سے جو میرا ہمسایہ تھا بطور افسوس اس واقعہ کا ذکر کیا۔ کاوا اسی وقت مجھے اطلاع دینے کے لیے تھانیسر دوڑ پڑا۔ جب تھانیسر پہنچا تو رات کافی بیت چکی تھِی۔ سب سے پہلے میرے مکان پر آیا لیکن میں اندر سو رہا تھا۔ اس نے جب دروازہ بند دیکھا تو آرام کے وقت میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، اور یہ سوچا کہ صبح کے وقت اطلاع دے دوں گا۔ حقیقت یہ تھی کہ تقدیر اسے دروازے پر سے ہٹا لے گئی۔

اب انبالہ کی کیفیت سنیے۔ جب یہ تار انبالہ پہنچا تو میری خانہ تلاشی کے لیے وارنٹ جاری ہوا، اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کپتان پارسن، پولیس کی ایک بھاری جمعیت کے ساتھ راتوں رات میرے مکان پر پہنچ گیا۔ قدرتِ الٰہی کا تماشہ دیکھیے ایک ہی وقت میں دو آدمی روانہ ہوتے ہیں ایک کرنال سے مجھے خبر دینے کو اور دوسرا انبالہ سے میری خانہ تلاشی کو۔ کرنال والا جو میرا خیر خواہ تھا پہلے پہنچا اور کچھ نہ کر سکا۔

چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
سوزنِ تدبیر ساری عمر گر سیتی رہے

دوسرے صاحب رات کے تین بجے میرے گھر پر پہنچ گئے۔ چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرنے کے بعد مجھے باہر بلایا۔ جب باہر نکلا تو دیکھا سپرنٹنڈنٹ پولیس، خانہ تلاشی کے وارنٹ کے ساتھ میرے دروازہ پر موجود ہے۔ اس نے وارنٹ دکھائے اور کہا کہ مکان کی تلاشی لو، میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، میں نے سوچا کہ تلاشی پہلے گھر کے اندر کی ہو تو بہتر ہے؛ تاکہ بیٹھک میں رکھا ہوا خط پولیس کے ہاتھ نہ لگے، لیکن جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے، باوجود یکہ صدر دروازے کی اندرونی دہلیز میں بالکل اندھیرا تھا اور بیٹھک کا دروازہ جو کہ شمالی جانب تھا، بالکل نظر نہیں آتا تھا، لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب اسی پر مصر ہوئے کہ پہلے بیٹھک ہی کی تلاشی لی جائے۔

بیٹھک میں داخل ہونے کے لیے دو دروازوں کا کھلوانا ضروری تھا، جوکہ اندر سے بند تھے۔ میں نے چالاکی سے منشی عبد الغفور کا نام (جو اس کے اندر چند آدمیوں کے ہمراہ موجود تھے) لے کر بلند آواز سے کہا کہ “سپرنٹنڈنٹ صاحب تلاشی کے لیے کھڑے ہیں، تم جلد دروازہ کھول دو۔” اس سے میری غرض یہ تھی کہ کسی طرح وہ لوگ تلاشی کی بات سمجھ کر دروازہ کھولنے سے پہلے اس زہریلے خط کو چاک کر دیں سپرنٹنڈنٹ نے میری پکار کو سمجھتے ہوئے مجھے روکا لیکن میں کہاں سنتا تھا، بیٹھک کے اندر والے گھبراہٹ میں میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اب بیٹھک میں تلاشی ہونے لگی تو جس خط کا ڈر تھا، سب سے پہلے وہی پولیس کے ہاتھ لگا۔ اسی شام کو پکڑے جانے سے چھ گھنٹے پہلے تقدیر نے وہ خط میرے ہاتھ سے لکھوا رکھا تھا۔ خط امیرِ قافلہ کے نام تھا اور اس میں اصطلاحی لفظوں میں چند ہزار اشرفیوں کی روانگی کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ چند خطوطِ پارینہ بھی پولس کے ہاتھ لگ گئے، جو کہ محمد شفیع انبالوی کو پٹنہ سے ارسال کیے تھے، اگرچہ ان خطوط میں کوئی مضر بات نہ تھِی، مگر ان سے پولیس کو محمد شفیع انبالوی اور اہلِ پٹنہ مثلًا مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرّحیم اور مولانا احمد اللہ وغیرہ (جو اس وقت تحریکِ مجاہدین کے ارباب حل و عقد تھے) کی تلاشی و تفتیش کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔

منشی عبد الغفور جو کہ بہار کے ضلع گیا کہ باشندے تھے اور میرے پاس محرری کا کام کیا کرتے تھے اور ایک لڑکے عباس نامی کو جو بیٹھک میں سویا ہوا تھا، پولیس پکڑ کر لے گئی، اگر چہ میری نسبت انھیں قوی شک ہو گیا تھا، لیکن وارنٹ گرفتاری اور گورنمنٹ کی منظوری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو کہ ایسے مقدمات میں ضروری ہے، پولیس نے مجھ سے کچھ تعرض نہ کیا۔

مصنّف نے تلاشی کا حال لکھنے کے بعد "فرار” کا واقعہ کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
پولیس کی واپسی کے بعد یہ بات غور طلب تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اس خیال سے کہ چونکہ میرے گھر سے ثبوت مل گیا ہے، اور جنگِ سرحد کی وجہ سے حکومت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرار ہو جانا اور بزدلی سے جان بچانا مناسب سمجھا، اگر چہ پولیس کی حراست میں نہیں تھا، مگر وہ چاروں طرف سے میرا سراغ لگائے ہوئے، میری حرکات کو تاک رہے تھے۔

میں نے اپنی والدہ ماجدہ جو کہ اس وقت بقیدِ حیات تھیں اور اپنی بیوی سے صلاح و مشورہ اور انھیں اپنے فرار پر راضی کر کے یہ داؤ کھیلا کہ میں 12دسمبر 1863ء کو اپنے شہر سے روانہ ہو کر اوّل موضع پیپلی میں، جہاں تحصیل اور تھانہ و غیرہ ہے، آیا اور تحصیل اور پولیس کے ملازمین سے بھی رائے لی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سب نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ تم انبالہ جاؤ اور وہاں سے دریافت کرو کہ یہ کیا مقدمہ ہے؟ اور کس نے مخبری یہ کی ہے؟

یہ سب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد میں بوقتِ شام براستہ سڑک کلاں پیپلی سے بظاہر انبالہ کو روانہ ہوگیا، اس وقت بہت سے آدمی چشمِ محبت اور افسوس سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جب میں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر چلا تو ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ میں انبالہ جا رہا ہوں جب تک دن کی روشنی رہی میں برابر سڑک پر انبالہ کی طرف چلتا رہا۔ کوئی میل بھر راستہ چلنے کے بعد جب خوب تاریکی پھیل گئی اور مسافر بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے، تو میں نے سڑک کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور تھانیسر کے متصل اپنی زمین میں مقررہ جگہ پر ایک بجے رات پہنچ گیا۔

جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ والدہ ماجدہ، بیوی، بچے اور بھائی محمد سعید آخری ملاقات کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ والدہ سے آخری ملاقات کر کے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ایک عمدہ بیلی پر سوار ہو‎ئے اور بتیس میل کا فاصلہ طے کر کے صبح پانی پت پہنچ گئے۔ میں شہر کے اندر گیا؛ بلکہ سڑک ہی سے بیوی بچوں کو رخصت کر دیا، اس وقت میں جس سے بھی رخصت ہوتا تھا زندگی میں دوبارہ ملنے کی امید نہ تھی۔ بہیلی والے سے میں نے کہا کہ میرے بیوی بچوں کو پانی پت میں چھوڑ کر تم بہیلی لے کر جمنا پار چلے جانا، یہ بہیلی مع بیلوں کی جوڑی جو تین سو روپیہ سے کم قیمت کے نہیں ہیں، ہم نے تمھیں اس شرط پر بخش دی کہ کسی کو میرے بال بچوں کی خبر نہ دینا اور جب تک یہ معرکہ گرم رہے تھانیسر نہ جانا۔

جس وقت ڈاک خانہ پانی پت کے سامنے میں ساری عمر کے لیے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہوا اور میرا یکّہ ان کے سامنے دہلی کو چلا، وہ حادثہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج بھی وہ ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے، اور شب و روز کی گردشوں کے باوجود میں اسے بھول نہ سکا۔

Comments

- Advertisement -