تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

ایک قیدی کا اعلیٰ کردار

ایک دفعہ اتوار کے دن میں اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک سپرنٹنڈنٹ صاحب ہمارے نمبر میں پہنچے، اور تمام قیدیوں کی تلاشی کا حکم دیا۔ یکے بعد دیگرے سب کی تلاشی ہوئی۔ جب میرے بستر کی تلاشی ہوئی تو اس میں تھوڑا سا پسا ہوا نمک برآمد ہوا اور یہ ایسا قصور تھا کہ اس کی پاداش میں کوڑوں کی سزا ہو جایا کرتی تھی۔

جب یہ برآمد شدہ نمک سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش ہوا تو میں حیران تھا کہ کیا جواب دوں۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ صندل نامی ایک مسلمان قیدی جو انبالہ جیل سے میرے ساتھ آیا تھا اور میری خدمت کیا کرتا تھا، کہنے لگا کہ یہ بستر اور نمک تو میرا ہے، مولوی صاحب کا نہیں۔

سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا یہ کیسے؟ اس نے کہا کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے میں اور مولوی صاحب پیشاب کرنے کے لیے بیت الخلاء میں گئے تھے کہ اسی اثنا میں آپ آگئے، ہم جلدی جلدی جو دوڑ کر آئے تو گھبراہٹ میں ایک دوسرے کے بستر پر بیٹھ گئے۔

سپرنٹنڈنٹ یہ بیان سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو، اس کے بعد نمبر سے باہر جہاں کوڑے لگائے جاتے تھے، ہم دونوں کو لے گیا، دوسرے جن قیدیوں کے بستروں سے کچھ نکلا تھا، انھیں کوڑے لگنے شروع ہوئے، جب سب کو کوڑے لگ چکے تو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر صندل سے پوچھنے لگا کہ کیا یہ سچ ہے کہ یہ نمک اور بستر تمھارا ہے، مولوی صاحب کا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! نمک اور بستر تو میرا ہے، آگے آپ کو اختیار ہے۔

یہ جواب سن کر اس نے ہم دونوں کو بری کر دیا اور کچھ سزا نہ دی۔ اور صندل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اچھا اگر تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو تو ہم نے تم کو بھی معاف کردیا، آئندہ محتاط رہنا۔

(یہ واقعہ جعفر تھانیسری کے انڈمان جزائر میں قید و بند کے دوران دوستی اور ایثار کی ایک مثال ہے جو ان کی تحریر کردہ کتاب تواریخِ عجیب المعروف بہ کالا پانی سے نقل کیا گیا ہے، یہ کتاب 1884ء میں شائع ہوئی تھی۔ مصنّف بیس سال تک قید رہے اور 1866ء میں رہائی پائی۔)

Comments

- Advertisement -