تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

آئندہ انتخابات میں حکومت بنانے کا دعویٰ کرنا پیپلزپارٹی کا حق ہے: جہانگیر ترین

یہ بات اہم نہیں کہ عمران خان اور آرمی چیف کی ملاقات کے لئے پہل کس نے کی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ جس میں مختلف امور اورملک کو درپیش مختلف چیلنجز پر بات ہوئی جن میں نیشنل ایکشن پلان ، دہشت گردی وغیرہ قابل ذکر تھے۔ یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات


ان کا کہناتھاکہ جب پاک افغان سرحد پر کشیدگی جاری تھی تو چیئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اس سلسلے میں آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔البتہ یہ ملاقات بعد میں ممکن ہوئی۔ ملاقات میں خصوصیت سے جنرل راحیل شریف کا سعودی قیادت والی فوجی اتحاد کی سربراہی کے عہدے پر تقرری قابل ذکر ہے۔ ہماری جماعت کا واضح موقف ہے کہ ہمیں خطے میں غیر جانب دارانہ پالیسی پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے اور خطے میں طاقت کو متوازن رکھنے میں اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ ہم سعودی عر ب اور ایران دونوں کے ساتھ برابری کے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ اس ملاقات میں دہشت گردی کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔ پنجاب میں مقیم پشتونوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہاہے اس پر بھی ہمارے پارٹی کا ایک واضح موقف ہے ۔ ایک سوال پر کہ کیا آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات میں ڈان لیکس کا معاملہ بھی زیرِبحث آیا۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ قومی سلامتی کے سارے امورپربات چیت ہوئی۔ فوج اس ریاست کا ادارہ ہے ہم بھی بحیثیت سیاسی جماعت اس ملک کا حصہ ہیں ۔ اس ملاقات کو بہت زیادہ اچھالنے کی ضرورت نہیں تھی چونکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں اکثر ملاقات وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے درمیان ہوتی تھی۔

کیا عمران خان نے میاں شہباز شریف کوفالو کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا اپنا الگ طریقہ کار تھا اور جنرل قمر باجوہ کی الگ شخصیت ہے ظاہر ہے دونوں کے طریقہ کاربھی جدا ہے۔اس ملاقات میں بہت سارے معاملات کا ہمیں علم ہوا کہ کس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ آگے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پانامہ لیکس کا فیصلہ


پانامہ لیکس کے فیصلے سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پرجہانگیر ترین کا جواب تھا کہ پانامہ سے متعلق اس ملاقات میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ البتہ پاکستان کا ہر شہری یہ پوچھ رہاہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ کب تک متوقع ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے پریڈیکشنز ہورہی ہے کہ فلاں تاریخ کو یا فلاں وقت پہ پانامہ کا فیصلہ آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ کا معاملہ کورٹ میں بہترانداز سے زیرِسماعت رہا کورٹ نے کسی بھی فریق کے ساتھ کوئی سختی نہیں دکھائی۔ فریقین سے اپنی اپنی دستاویزات پیش کرنے کا کہا اوربہت بہتر انداز سے سارا معاملہ چلا۔سماعتوں کے دوران میں جج صاحبان نے گہری باتیں کیں ۔ مجھے امید ہے کہ پانامہ کا فیصلہ بہت جلد آئے گا اور ملک وقوم کے مفاد میں یہ ایک بہترین فیصلہ ہوگا۔ ان کو وقت دینا چاہئے ۔ پورے معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے یہ پوری قوم کا مطالبہ ہے ۔ نیب کیا کام کرتی ہے ایف آئی اے کی کیا ذمہ داری ہے ؟ یہ دونوں ادارے حکمران خاندان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے گریزان ہیں۔ اب یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ میاں نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونے والی ہے ۔ حکمرانوںنے اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، ادارے ریاست کے مفاد کی بجائے میاں برادران کے مفادات کو دیکھ رہی ہے۔ایسی صورت میں قوم کی تمام تر امیدین سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔

آئین کے دفعہ183/4میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دوبارہ اپیل کا حق دینے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جہانگیر ترین کا کہناتھا کہ 183/4میں ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں ۔ لیکن اس وقت جبکہ حکمران خاندان کا کیس چل رہاہے اس ترمیم کا آنا بہت زیادہ مشکوک ہے ۔پاکستان تحریک انصاف ایسے موقع پر اس بل کی بالکل حمایت نہیں کرے گی۔اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکمران جماعت اس بل کو پارلیمان سے منظور کرنے کے لئے لابنگ کررہی ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ اس وقت حکومت کو اس ترمیم میں کامیابی نہیں ملے گی پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اس سلسلے میں کچھ اقدام اٹھایا ہے مجھے امید ہے کہ پی پی پی اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

پانامہ کیس کے فیصلے کے ایک دو ماہ کے اندر یہ ترمیمی بل پارلیمان سے پاس ہوا تو کیا اسے سپریم کورٹ پر حملہ تصورکیا جائے کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ اس کا انحصار پانامہ کے فیصلے پر ہے۔کس قسم کا فیصلہ آتا ہے ۔ پانامہ کیس کے فیصلے سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔پہلے ایک پارٹی کرپشن کرکے چلی جاتی تھی تو دوسری پارٹی اس کی جگہ لے رہی تھی ۔کروڑوں روپے سیکرٹری فنانس کے گھر سے نکلتے ہیں۔ لیکن اس کا کچھ نہیں ہوتا ۔ اربوں روپے کے کرپشن کا کچھ نہیں ہوتا اب لوگ تنگ آچکے ہیں۔ آخر کب تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں سارے ثبوت بھی موجود ہوتے ہیں پھر بھی مجرم چھوٹ جاتے ہیں ۔ کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ اب ہمیں اس نظام کو ختم کرنا ہوگا ۔عوام سمجھتے ہیں کہ پانامہ کیس کافیصلہ عوام ہی کے مفاد میں آئے گا۔اس کیس سے ملک کودرست سمت میں گامزن ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

آئندہ انتخابات اور پیپلز پارٹی کادعویٰ


اگلے انتخابات میں زرداری کے حکومت بنانے کے دعویٰ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ زرداری کا حق ہے آخرپی پی پی ملک کی بڑی پارٹی رہ چکی ہے عروج پر رہی ہے۔ تو یقینا وہ آئندہ کے لئے سوچتی ہوگی۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اسٹیٹس کو کے خلاف ہے ۔ہم پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ دونوں کو اسٹیٹس کو کی جماعتیں سمجھتے ہیں ۔ زرداری صاحب واضح انتخابی سیاست کررہے ہیں ملک کے بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی میں شامل کیا جارہاہے جو الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمیں بھی ضرورت ہے لیکن ہماری سیاست نظریات کی بنیا د پر استوار ہے۔

عمران خان کا وژن ہے کہ ملک کو بدلنا ہے، کرپشن کاخاتمہ ناگزیر ہے ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔عوامی ووٹوں کی طاقت کو دوباہ عوام کی فلاح وبہبود کے لئے قابل استعمال بنایا جائے گا۔جب تک ریاستی اداروں کو خود مختار نہیں بنائینگے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔خیبرپختونخواہ میں ہم نے پولیس کو بااختیار بنا یا۔ اسمبلی سے ایکٹ پاس کروا کر پولیس کو قانونی تحفظ دیا اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرکے انہیں اختیارات اور فنڈز فراہم کیا۔ رواں سال میں انتخابات کے امکانات سے متعلق جہانگیر ترین نے کہا کہ اس سال کے آخر تک مردم شماری مکمل ہوگی ۔ جب مردم شماری مکمل ہوگی تب ہی انتخابات ممکن ہیں۔ اس سلسلے میں انتخابی حلقہ بندیاں ہوں گی۔

قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے متعلق جہانگیر ترین نے کہا کہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔جو کہ مسلم لیگ (ن) نہیں کرسکتی۔ البتہ دیہات سے شہروں کی جانب ہجرت کی وجہ سے حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں ہوگی۔ اور اس کے بعد ہی الیکشن کے امکانات ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی سیاست میں بالکل نئے انداز سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں ہم ڈونلڈ ٹرمپ اورمودی سے بھی بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔کہ کس طرح تمام میڈیا اور ایجنسیوں کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست عوام سے رابطہ کیا۔ اسی طرح مودی نے صرف چھ ماہ کی محنت سے یوپی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور سارے سیاسی پنڈتوں کی پیشنگوئوں کو غلط ثابت کیا۔ ہماری بھی کوشش ہے کہ بالکل نئے انداز سے الیکشن لڑا .جائے

وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے اثا ثہ جات پر خصوصی رپورٹ


پروگرام کے دوسرے حصے میں وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے خاندان کاا لیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کئے گئے اثاثہ جات پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ۔

سنہ 2011ء میں وزیر اعظم کے اثاثہ جات کی کل مالیت 166ملین روپے تھی
سنہ 2012میں وزیر اعظم کے اثاثہ جات کی مالیت261.6ملین روپے تک پہنچ گئی
سنہ 2013ء میں یہ اثاثہ جات 1.82ارب روپے ہوگئے۔
سنہ 2014ء تک پہنچتے پہنچتے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے اثاثہ جات تقریباََ 2ارب ہوگئے۔

پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ میں قطری شہزادے کا ایک خط پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ فلیٹس اس سے خریدے گئے ہیں کیا قطری شہزادے کو دی گئی رقم اور اس کا منافع میاں شریف نے کبھی ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ ٹیکس میں ظاہر کیا ؟

ایف بی آر میں جمع کئے گئے دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم نے 11کروڑ سے زائد رقم بینک سے نکلوائی کیااس سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ باہر سے آئے تحائف کا استعمال کرکے موجود ہ دولت کم کرکے وسائل جتنا ظاہر کیا گیا؟کیا یہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی خلاف ورزی نہیں کیونکہ اس کے لئے وزیر اعظم نے ٹیکس نہیں دیا۔

عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12میںزیر کفالت کی تعریف یوں کی گئی ہے ’’ایسا شخص جس کے اثاثے اور اخراجات کوئی اور شخص برداشت کریں‘‘ مریم نواز کے انکم ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے زیر کفالت رہی ہیں۔ مریم نواز نے ذاتی اخراجات صرف سفر کے ظاہر کئے گھریلو اخراجات کا ذکر نہیں کیا۔اپنے زیر استعمال گاڑی کوبھی تحفہ ظاہر کیا لیکن گاڑی کی دیکھ بال کے اخراجات نہیں بتائے ۔2012ء میں ظاہر کی گئی گوشواروں میں جمع کی گئی دولت 17کروڑ 29لاکھ روپے میں والد کے دئیے گئے تحفے بھی شا مل ہیں۔

2010ء میں مریم صفدر کی کوئی زرعی زمین نہیں تھی ۔کیا زرعی زمین خریدنے کے لئے مریم صفدرنے والد سے تحائف وصول کئے؟ اور کیا قانون کے مطابق یہ تمام اثاثہ جات میاں نواز شریف کے تھے ؟ کیونکہ مریم صفدر کو رقم نواز شریف نے ہی دی تھی۔

30جون 2011ء کوجمع کرائے گئے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میںمریم صفدر نے 3 کروڑ 20 لاکھ 58 ہزار نوسوتیس روپے کی نئی زرعی زمین دیکھائی ۔اسی سال 3کروڑ 17لاکھ روپے کا تحفہ والد نواز شریف سے وصول شدہ ظاہر کیا۔اسی طرح ایک اور زمین جس کی مالیت 4کروڑ 19لاکھ روپے ہیں، جس میں والد سے ایک اور تحفہ 5کروڑ 16لاکھ ظاہر کی۔

داستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم زرعی زمین خریدنے کے لئے والد کے تحائف پر ہی انحصار کرتی رہیں ۔ میاں نواز شریف اور مریم صفدر کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے اکثر تحائف کا تبادلہ سامنے آتا ہے۔2010ء میں مریم صفدر کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں تھی ۔والد سے ملنے والے تحائف کے بعد مریم 2011-12 میں زرعی زمین کی مالک بن گئیں۔ کیا ان کی آمدنی میاں نوازشریف کی آمدنی تصور کی جائے گی؟
میاں نواز شریف 2013ء سے قبل مریم کو اپنا زیر کفالت ظاہر کرچکے تھے۔ لیکن آف شور کمپنیاں ظاہر نہیں تھی ۔حسین نواز کے مطابق 2006سے وہ مئے فئیر فلیٹس کے مالک ہیں اور ان کی بہن صرف ٹرسٹی ۔

سنہ 2011مریم صفدر نے خود کہا کہ ان کی لندن میں کوئی پراپرٹی نہیں اور ٹرسٹ بھی برطانوی اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔ الیکشن 2013ء میں شریف خاندان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی حالانکہ اس وقت یہ 4.9ارب روپے کے نادہندہ تھے۔

سنہ 1994-95ء میں شریف خاندان نے 9بینکوں سے قرضہ لیا جس کو وہ 2013ء تک واپس نہیں کرسکے ۔اربوں روپے کا یہ قرضہ الیکشن کے بعد ادا کیا گیا ۔

کپٹن صفدر نے بھی مریم صفدرکے آف شور کمپنیوں کا اپنے اثاثہ جات میں ذکر نہیں کیا۔وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ان کا بیرونی ملک کوئی اثاثے موجود نہیں۔ حالانکہ برطانیہ میں مقیم بیٹے سے بڑی بڑی رقوم تحائف کی صورت میں حاصل کرتے رہے۔


مکمل پروگرام دیکھیں


Comments

- Advertisement -
کریم اللہ
کریم اللہ
چترال سے تعلق رکھنے والے کریم اللہ نے پشاور یونی ورسٹی سے پالیٹیکل سائنس میں گرایجویش کیا ہے۔ فری لانس صحافی‘ کالم نگار اور بلاگر ہیں اور معاشرے کے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بھرپور گرفت رکھتے ہیں۔