اسلام آباد ہائی کورٹ نے خلاف سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اڈیالہ جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل منظور کر لی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 اگست کے جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیا۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
تاہم عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جج کی تعیناتی درست قرار دے دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کا اطلاق ماضی کے ٹرائل پر نہیں ہوگا۔
تحریری فیصلہ
3 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس کے مطابق 29 اگست سے آج تک کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے،
29 اگست کے بعد جیل میں ہونے والی تمام کارروائی کی کوئی حیثیت نہیں، 29 اگست اور اس کے بعد کے وزارت قانون کے تمام نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔
جیل ٹرائل سے متعلق 29 اگست، 12 ستمبر، 25 ستمبر، 3 اکتوبر اور 13 اکتوبر کے نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دیے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ 27 جون کا جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق درست ہے، جیل میں ٹرائل تب ہی کیا جا سکتا جب وہ اوپن ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ان کیمرہ ٹرائل بھی تب ہی کیا جا سکتا ہے جب تمام قانونی عمل مکمل ہو، غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یا ان کیمرا ہو سکتا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا
سماعت کا احوال
چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیازنے سماعت کی تھی۔
اس دوران ملزم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگرمان بھی لیا جائے کہ پراسس کا آغاز ٹرائل کورٹ جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا، کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن میں وہ کچھ لکھا گیا جو جج نےکہا ہی نہیں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ جیل ٹرائل کیلیے منظوری وفاقی کابینہ کو دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود ہی نہیں، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے، جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہیے، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں اور نہ ہی کوئی فائنڈنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس کیس میں سب سے بنیادی غیر قانونی اقدام ہے، مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہوگئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہے۔
اس پر جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کیلیے تھا؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے، آرٹیکل تین سوباون کے تحت ماضی کی کارروائی پر تیرہ نومبر کا اطلاق نہیں ہوتا۔
وکیل نے مزید کہا کہ کابینہ منظوری کیلیے جوڈیشل آرڈر بنیادی چیز ہے جو موجود ہی نہیں، اس لیے سائفر کیس میں ابھی تک جیل ٹرائل کی کارروائی غیر قانونی ہے، جس پر جسٹس ثمن رفعت نے کہا قانونی بے ضابطگیاں تو بہرحال موجود ہیں۔
بعد ازاں، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا مختصر فیصلہ آج شام ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا، شارٹ آرڈر کے بعد تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہوگا۔