تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

جمال الدّین افغانی اور اصلاحی مشن

سید جمال الدّین افغانی انیسویں صدی عیسوی کے صفِ اوّل کے با اثر مسلمان زعما میں سے تھے۔ شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال ان کی مساعی و نظریات کے بڑے معترف رہے۔ انھوں نے اپنی تصانیف اور بیانات میں بھی ان کا ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا۔

خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ برِصغیر میں بھی مسلمان انگریزوں کے غلام بن چکے تھے۔ خلافت کے زیرِ اثر مسلم ممالک میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو چکا تھا۔ مسلمان نوآبادیات اور کئی مسائل کی وجہ سے ہر جگہ مغلوب ہو رہے تھے، ایسے میں جمال الدین افغانی نے مسلم ممالک کو اِس بات پر قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا کہ اسلامی ممالک متحد ہوں‌ ایک مرکز پر اکٹھے ہوکر اپنے دین اور روایات کے غلبے کی کوشش کریں۔

مؤرخین کے مطابق بظاہر شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریٔ روح کا احساس دلایا مگر اس کام کی اہمیت کا اندازہ جمال الدّین افغانی نے اپنی سیاسی بصیرت اور جہاںدیدگی سے کیا۔

جمال الدین افغانی طباطبائی سیّد تھے۔ جلال آباد کے قریب ایک گاؤں‌ اسد آباد میں 1839ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مولد میں حاصل کی۔ تکمیلِ علوم و فنون کی غرض سے آپ نے کابل اور بعد میں ایران کے شہروں مشہد، اصفہان اور ہمدان کا رخ کیا۔ اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے بل بوتے پر اٹھارہ برس کی عمر میں تاریخ، حکمت و فلسفہ، ریاضی اور نجوم وغیرہ مکمل کیے۔ اسی سال ہندوستان چلے آئے اور ایک سال تک یہاں قیام کے دوران اردو اور انگریزی بھی سیکھی۔ بعد میں‌ فرماں روائے افغانستان امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے کے اتالیق مقرر ہوئے۔ بعد میں سیاسی اور ملکی حالات بدلے تو ملازمت ترک کر دی اور ترکی، استنبول چلے گئے۔ اسی طرح لندن، امریکا اور پیرس کا سفر کیا۔ پیرس میں فرانسیسی زبان سیکھی۔ انھیں سیاسی زعما اور والیانِ ریاست کے قریب رہنے اور ان سے بدلتے ہوئے حالات میں‌ صلاح مشورے کا شرف تو حاصل رہا، مگر حاسدین اور بدخواہوں‌ نے انھیں کہیں‌ ٹکنے نہ دیا۔ شاہِ ایران سے اختلاف کے بعد وہ 1893ء میں سلطان عبدالحمید عثمانی کی دعوت پر استنبول آگئے۔ 9 مارچ 1897ء کو انتقال فرمایا اور استنبول میں دفن ہوئے۔ کئی برس بعد ان کے جسدِ خاکی کو کابل منتقل کیا گیا۔

افغانی نے بھی اپنے وطن (افغانستان) میں کافی اصلاحات کے لیے جو تجاویز اور مشورے دیے ان میں فوج کی تشکیلِ نو، سفیروں اور نمائندوں کے تقرر، ڈاک کے نظام کی بہتری شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ روس میں ان کی کوشش کے نتیجے میں زار نے قرآنِ مجید کے روسی ترجمے اور بعض اسلامی کتب کی اشاعت کی اجازت دی تھی۔

افغانی کی خداداد استعداد اور قابلیت کو مخالفین نے بھی تسلیم کیا ہے۔ وہ اردو، انگریزی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں میں‌ دستگاہ رکھتے تھے۔ وہ ایک ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطۂ نظر کے حامل تھے۔ انھوں‌ نے تقاریر کے ساتھ اپنے مضامین کے ذریعے انقلابی کوششیں کیں۔

وہ ایک صحافی، دانش ور اور خطیب تھے جس نے افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ اپنے روابط کو اصلاحی مشن کے لیے استعمال کیا۔

Comments

- Advertisement -