کراچی : ممتاز ناول نگار خرم سہیل کی تدوین کردہ کتاب ’خاموشی کا شور ‘ کی تقریب رونمائی جاپان انفارمیشن اینڈ کلچر سینٹر میں ہوئی، جس میں جاپانی قونصل جنرل اور دیگر عہدیداروں اور قلمکاروں اور ادیبوں نے شرکت کی ۔
فاطمہ ثریا بجیا کی جانب سے جاپانی کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دی گئی ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، ثریا بجیا کی تحریروں کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہے۔
نامہ نگاروں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو تہذیب کو جاپان سے جوڑا ہے۔
جاپان کے کونسل جنرل توشی کازو آئزو مورا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب میں 2007 میں فاطمہ ثریا بجیا سے تو وہ پہلے سے ہی ایک مشہور ڈرامہ رائٹر تھیں، انھیں جاپانی ادب پسند تھا اور وہ کچھ جاپانی ڈراموں کا پہلے ہی اردو میں ترجمہ کر چکی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ادب کے حوالے سے فاطمہ ثریا بجیا کی خدمات شاندار ہیں۔ انھوں نے جاپانی ڈرامے میں اپنی پرفارمنس سے متعلق بھی بات کی، جیسے کا ترجمہ بجیا نے کیا تھا اور اس کی خرم سہیل اسکی پروڈکشن میں شامل تھے، جس کے بعد سہیل نے جاپانی قونصل خانے میں شمولیت اختیار کی اور پھر خرم سہیل نے فاطمہ ثریا بجیا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے ترجمہ کیے گئے جاپانی ڈراموں کو ایک کتاب کی شکل دیں۔
فاطمہ ثریا بجیا کے چھوٹے بھائی اور ممتاز رائٹر انور مقصود نے کتاب کے اجراء پر جاپانی کونسل جنرل اور خرم سہیل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بجیا کو جتنی پاکستان سے محبت ہے اتنی ہے جاپان سے بھی محبت تھی۔
ممتاز ناول نگار خرم سہیل کا کہنا تھا کہ میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کررہا ہوں کہ اتنے مشہور و نامور لوگوں کے درمیان ہوں، ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ ثریا بجیا صرف ٹیلی ویژن تک ہی محدود رہیں جبکہ ان کی صلاحیتیں اس سے کئی بڑھ کر تھیں، مجھے جاپان کے زریعے سے علم ہوا کہ وہ کتنی اہم شخصیت تھیں۔