تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں

انسان نے ہزاروں سال کے اس طویل سفر میں آخر کیا پایا جس میں وہ نامعلوم تاریخ کے تاریک غاروں سے نکل کر سیاروں کی تاب ناک دنیا تک جا پہنچا ہے۔

مانا جاتا ہے کہ حجری وحشیت سے جوہری مدنیت تک انسانیت کی پیش رفت زمین کے زمانوں کی سب سے زیادہ عظیمُ الشّان سرگزشت ہے اور ابھی تو انسانی علم کی دود بڑھائی ہوئی ہے، ابھی تو وہ گھٹنوں کے بل چل رہا ہے، ابھی تو اسے اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہونا ہے۔ پھر بھی اس بچّے نے کتنی چیزیں اُلٹ پلٹ کر ڈالی ہیں اور وجود کے صحن میں کیا کچھ لا بکھیرا ہے، کیا کچھ توڑا ہے اور کیا کچھ جوڑا ہے اور اس طرح کیا کچھ پایا ہے اور کیا کچھ بنایا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس نظامِ شمسی کی عجیب تر آیتیں اس کرۂ ارض کے سینے پر لکھی گئی ہیں اور یہ کہ یہ سب سے زیادہ ماجرا ناک کرّہ ہے، ایک راست قامت جانور کتنا جوہر دار نکلا ہے جس کے بل پر اس زمین نے آسمان سر پر اٹھایا ہے۔
یہ سب کچھ ہوا ہے، پر یہ سب کچھ کس لیے ہوا ہے؟ انسان نے ہزاروں سال کے اس سفر میں کیا پایا؟ چاند تمہاری مٹھی میں آگیا ہے اور آیندہ تم سورج کو اپنی بغل میں دبالو گے۔ پر اس سے تمہارا مقصد آخر کیا ہوگا؟ اکتشاد، ایجاد اور تسخیر، دانش کا سب سے بیش قیمت وظیفہ ہیں، مگر کیا انسانوں کا یہ شان دار انہماک اپنے شرم ناک جرائم کو بھلانے کی کوشش تو نہیں؟

قرن ہا قرن اور ہزارہا ہزار سال کے اس بادیہ نشین نے اپنے گرد پُرہجوم شاہ راہوں اور پُرشکوہ شہروں کی ایک بھیڑ لگا رکھی ہے۔ پر، سوچنا یہ ہے کہ اس بھیڑ میں اس نے کہیں اپنے آپ کو تو نہیں کھو دیا؟

وہ دانش تاریخ کے یوم القیام میں اپنا کیا جواز پیش کرے گی جس نے اس زمین پر زندگی کو کچھ اور بھی مشکل، کچھ اور بھی ناسازگار بنا دیا ہے۔ اس تہذیب کو تباہ کن اسلحے کے بجائے اپنے وجود کے جواز میں کوئی معقول دلیل پیش کرنا تھی اور یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ وہ دلیل ابھی تک پیش نہیں کی جاسکی۔ کیا اس عہد کا انسان نیزہ بردار وحشیوں کی نسبت سے زیادہ مطمئن اور زیادہ مسرور ہے۔ کاش یہ دعویٰ کیا جاسکتا کہ ہر آنے والی نسل گزشتہ صدی سے زیادہ سعید اور خوش بخت ثابت ہوئی ہے۔

اس تہذیب کے بطن میں وہ عفونت آخر کس نے انڈیل دی ہے جس نے اس کے سانسوں کو زہر ناک بنا ڈالا ہے؟ یہ حقیقت بہ شدت معرضِ اظہار میں آنا چاہیے کہ تہذیب کے اس بے مہر اور سلح شور ارتقا کی فضا زندگی کے لیے ناسازگار ثابت ہوچکی ہے۔ ارتقا ایک اصطلاح ہے اور انسانی سکون و سعادت کو بہ ہر حال اصطلاحوں سے زیادہ قیمتی قرار پانا چاہیے۔

(انشائیہ، از جون ایلیا)

Comments

- Advertisement -