تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

دماغ ماﺅف ہیں…….

یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب

Comments

- Advertisement -