تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

سارتر جنھوں نے دنیا کا سب سے معتبر اعزاز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا

نوبیل جسے دنیا کا سب سے معتبر انعام سمجھا جاتا ہے، ژاں پال سارتر نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کرکے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔ اس عظیم فلسفی، دانش ور، ڈراما نویس، ناول نگار اور محقق نے 1980 میں آج ہی کے روز اس دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ سارتر کو سیاست، سماج اور ادب کی دنیا میں ان کے افکار اور نظریات کی وجہ سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

1905ء میں فرانس کے مشہور شہر پیرس میں پیدا ہونے والے سارتر ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ان کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارادن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے اور اسی عرصے میں انھوں نے لکھنا بھی شروع کردیا۔ سارتر کہتے تھے کہ انھیں نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق ان کا جنون بن گیا تھا۔ سارتر بہت اچھے گلوکار، پیانو نواز اور باکسر بھی تھے۔

سارتر کو فرانس کا ضمیر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے روشن نظریات اور اجلی سوچ نے انھیں اس بلند مقام تک پہنچایا جہاں ایک دنیا ان سے متاثر ہوئی۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگئے، لیکن انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری تھی۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے اپنی فکر کا پرچار بھی کیا۔

وہ درس وتدریس سے بھی منسلک رہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران انھیں جرمن فوج نے گرفتار کر لیا اور ایک سال تک جرمنی میں نظر بند رکھا۔ سارتر کسی طرح فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے اور بعد میں‌ فرانس پر جرمنی کے قبضہ کے خلاف مزاحمتی تحریک میں پیش پیش رہے، جنگ کے بعد انھوں نے بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک جریدہ نکالا، جو بہت مشہور ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوئیں اور یہ جریدہ فکری انقلاب کا زینہ ثابت ہوا۔

سارتر کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی تھے، لیکن بائیں بازو کی کسی جماعت سے وابستہ نہیں رہے۔ وہ جنگ کے خلاف تحاریک میں انتہائی سرگرم رہے۔ انھوں نے الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہروں میں پیش پیش رہے۔

Comments

- Advertisement -