تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

باغی اور روایت شکن جون ایلیا کی برسی

جون ایلیا کو اردو نثر اور نظم میں‌ ان کے منفرد اسلوب اور غیرروایتی انداز نے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔ نثر اور نظم دونوں اصنافِ ادب میں‌ بیان و اظہار پر انھیں یکساں قدرت حاصل تھی، لیکن موضوعات اور غیرروایتی انداز کے سبب انھیں ایک باغی اور روایت شکن شاعر کی حیثیت سے زیادہ شہرت ملی۔ آج جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔

ان کا اصل نام سید جون اصغر تھا۔ 14 دسمبر 1931ء کو جون ایلیا نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو علم و فن کے حوالے شہرت رکھتا تھا۔ جون ایلیا کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے۔ نام ور فلسفی اور دانش ور سید محمد تقی اور معروف شاعر رئیس امروہوی جون ایلیا کے بھائی تھے۔ خود جون ایلیا بھی اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔

جون ایلیا کی تخلیقات میں تاریخ، فلسفہ، منطق اور زبان و بیان کی نزاکتوں نے انھیں‌ ان کے ہم عصروں میں‌ ممتاز کیا۔ شاعری میں‌ وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور روایت شکنی کے سبب خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ جون ایلیا نے اپنے کلام میں‌ محبوب کو براہِ راست اور نہایت بے تکلفی سے مخاطب کیا:

شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

ایک اور شعر دیکھیے:

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

جون ایلیا کی زندگی میں ان کا ایک ہی مجموعۂ کلام "شاید” کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔ اس شعری مجموعے کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ جون ایلیا کی شاعری کو ہر عمر اور طبقے میں‌ پسند کی گئی۔ جون ایلیا نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا اس پر لعن طعن، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا نے کسی جھجھک کے بغیر اپنی بات کہہ دی۔ ان کا ایک شعر ہے:

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

یہ شعر دیکھیے:

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

جون ایلیا مصنف اور مترجم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شاید کے بعد ان کے کلام پر مشتمل مجموعے یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ 8 نومبر 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے جون ایلیا کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -