پیر, دسمبر 9, 2024
اشتہار

جوکر: دو دیوانوں کی وحشت اور دیوانگی کا امتزاج

اشتہار

حیرت انگیز

یہ فلم 2019ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب ترین فلم "جوکر” (joker) کا ایک ایسا سیکوئل ہے، جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خراب اور زبردستی بنایا جانے والا سیکوئل کیا ہوسکتا ہے۔ کہاں ایک طرف اس فلم سیریز کی پہلی فلم نے ناظرین اور ناقدین دونوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اورکہاں اب ریلیز ہونے والی یہ فلم، جو شاید اپنی لاگت بھی پوری کر لے تو بڑی بات ہے، کیونکہ اس کا بجٹ بھی دو سو ملین ڈالرز ہے اورکئی فن کاروں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس اور بڑی کاسٹ کے ساتھ ساتھ، بڑے بجٹ اور گزشتہ فلم کی مثالی شہرت کے باوجود یہ فلم اگر ناکام ہوئی ہے، تو اس کی واحد وجہ ایک غیر دل چسپ کہانی ہے۔ شاید فلم جوکر (joker) کے سیکوئل کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن فلم ساز ادارے اور ہدایت کار نے اس کی کام یابی کو کیش کرانے کی کوشش کی اور کمائی ہوئی عزّت اور پیسے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کے لیے آپ کو یہ تجزیہ اور نقد پڑھنا چاہیے۔

- Advertisement -

کہانی/ اسکرپٹ

اس فلم کا مرکزی کردار جوکر کا ہے، جو بنیادی طور پر "ڈی سی کامکس” کے کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار پر بھی بہت ساری فلمیں بن چکی ہیں، لیکن 2019ء میں ریلیز ہونے والی فلم "جوکر” کو جو کام یابی ملی، وہ دیدنی تھی۔ اُس سال کے آسکر ایوارڈ میں تہلکہ مچانے والی فلم کی کہانی اور کرداروں کی تخلیق بھی باکمال تھی۔ حیرت انگیز طور پر ان دونوں فلموں کے اسکرپٹ رائٹر اسکاٹ سلور ہیں، دونوں اسکرپٹس میں انہیں، ان دونوں فلموں کے ہدایت کار "ٹوڈ فلپس کی معاونت بھی حاصل رہی۔ پہلی فلم ان دونوں کے تخلیقی ہنر کا درجۂ عروج ہے، جب کہ دوسری فلم دونوں کے ہنر کے زوال کی داستان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زبردستی کہانی کو طول دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ دوسری فلم میں بھی ان دونوں نے پہلی فلم کی کہانی ہی سنائی تو پہلی فلم کی کہانی سننے کے لیے دوسری فلم دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ناظرین کو، بہتر ہے وہ پہلی فلم ہی دیکھ لیں، یہی وجہ ہے کہ دوسری فلم کو جو Joker: Folie à Deux کے نام سے بنائی گئی ناظرین نے مسترد کر دیا۔

اس دوسری فلم کی کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ شخص جو جوکر بن کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اور وہ ایک پریشان کن شخصیت کا مالک تھا، کئی محرومیاں اس کی زندگی کا حصہ تھیں، پھر سماج کا برا سلوک جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے جرائم کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ پہلی فلم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ اس نے پانچ قتل کیے تھے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے کا باعث بھی بنا تھا اور پولیس اس کو گرفتارکر لیتی ہے۔ دوسری فلم کی ابتدا وہیں سے ہوتی ہے، وہ جیل میں اپنی سزا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس دوسری فلم میں اس کے مزاج کی ایک لڑکی اس کو ملتی ہے، دونوں میں محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ سب کیسے آگے بڑھتا ہے، فلم دیکھ کر تو کچھ سمجھ نہیں آتا، لیکن بہرحال ایسا ہوا۔

فلم سازی/ ہدایت کاری

معروف امریکی فلم ساز ادارے "وارنر بروس پکچرز” نے ان دونوں فلموں کو پروڈیوس کیا۔اس فلم کے سیکوئل کو بنانے کا حتمی فیصلہ، فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار جیکوئن فینکس کی خواہش پر کیا گیا، ورنہ شاید فلم سازوں اور ہدایت کار ٹوڈ فلپس کو اس فلم کے سیکوئل میں اتنی دل چسپی نہ تھی، مگر اداکار کے اصرار نے انہیں اس پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اور آخر کار یہ فلم اور اس کی پروڈکشن جو پہلی فلم سے دوگنی لاگت سے بھی زیادہ ہے، اس نے پہلی فلم کے دیوقامت تصور کو زمین بوس کر دیا۔ اپنے کیریئر کے اگلے برسوں میں ان تینوں کو چاہیے کہ ڈی سی کامکس کے کرداروں پر فلمیں بنانے کے ماہر اور بائیوپیک فلموں کو کام یابی سے تخلیق کرنے والے معروف فلم ساز کرسٹوفر نولان سے ٹیوشن لیں، کیونکہ وہ ان کو اس مخصوص کردار (ڈی کامکس کا کردار جوکر) کے ساتھ تجربات کرنے سے منع بھی کر چکے تھے۔ اور ان کی بات درست ثابت ہوئی کیوں کہ یہ تجربات بھیانک ثابت ہوئے۔

اداکاری و موسیقی

اس فلم میں سب سے نمایاں طور پر جس چیز سے سہارا لیا گیا، وہ بڑے بڑے اداکاروں کی شمولیت ہے۔ خاص طور پر لیڈی گاگا جنہوں نے اس فلم میں کام کرنے کا 12 ملین ڈالرز معاوضہ لیا جب کہ جیکوئن فینکس نے 40 ملین ڈالرز وصول کیے۔ یہ فلم چونکہ میوزیکل تھی، اس لیے شاید لیڈی گاگا کا انتخاب کیا گیا، لیکن نہ تو وہ اپنی اداکاری سے ناظرین کو لبھا سکیں اور ان کی گائیکی کے تجربے نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔ گزشتہ فلم کی موسیقی اس فلم سے کئی درجے بہتر تھی، مگر اس فلم میں موسیقی کا معیار بھی پست رہا اور لیڈی گاگا اور جیکوئن فینکس نے اس میں گائیکی کا مظاہرہ کر کے اس معیار کو تقریباً دفن ہی کر دیا۔ اس فلم میں بار بار لیڈی گاگا کے گیتوں سے فلم میں شدید اکتاہٹ پیدا ہوگئی۔

حرفِ آخر

اس فلم میں کئی طرح کے تضادات ہیں، جیسا کہ فلم ساز ادارے، ہدایت کار کے آپس کے جھگڑے، ایک اداکار کے کہنے پر ہدایت کار کا اس کے پیچھے چل پڑنا، ایک سنجیدہ نفسیاتی تھرلر فلم کو میوزیکل میں بدلنے کی ناکام کوشش، سب سے بڑھ کر پہلی فلم میں جوکر ہیرو تھا جب کہ اس دوسری فلم میں اس کو مظلوم بنا دیا گیا، اور اسے ناظرین قبول نہیں کرسکے۔کہانی میں کوئی کلائمکس نہ تھا، فلم انتہائی ناقص پلاٹ پر مبنی تھی، جس میں جوکر ایک قابلِ رحم آدمی کی موت مارا جاتا ہے۔ اس کے تناظر میں رومانوی تڑکا لگانے کی کوشش مزید گلے پڑی اور فلم بالکل ہی فارغ ہو گئی۔ قارئین، آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل کیا ہوتا ہے، تو یہ فلم ضرور دیکھیے۔

Comments

اہم ترین

خرم سہیل
خرم سہیل
خرّم سہیل صحافی، براڈ کاسٹر، مترجم، اردو زبان میں عالمی سینما کے ممتاز ناقد اور متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں۔ وہ پاکستان جاپان لٹریچرفورم کے بانی بھی ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ان کے نام سے فالو کیا جاسکتا ہے جب کہ بذریعہ ای میل [email protected] بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید خبریں