تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ انیسویں صدی کے وسط تک طب و صحت کی دنیا میں جراثیم کی وجہ سے کسی زخم یا آلاتِ جراحی کے آلودہ ہو جانے سے بیماریاں‌ پھیلنے اور اس کے نقصان دہ ثابت ہونے کا تصور نہ تھا۔

عام آدمی تو دور کی بات خود معالجین پانی سے ہاتھ دھونے اور خاص طور پر مرہم پٹی کے بعد کھانے پینے یا دوسرے کاموں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح‌ دھونے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ عمل ایک فطری اور طبعی عادت سے زیادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر جراثیم یا خرد بینی جاندار ہیں‌ بھی تو پانی سے ہاتھ یا آلات کو دھونے سے ختم نہیں‌ ہوسکتے۔

چوں‌ کہ جراثیم اور گندگی سے بچنے پر زور دینے کو اضافی یا غیرضروری یا وہم اور مفروضہ مانا جاتا تھا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا صاف ستھرا رہنا، نہانا دھونا ایک فطری خواہش، جسمانی تقاضا اور عام بات تھی۔

اگر کسی شخص کا زخم علاج کے باوجود پھیلتا اور ٹھیک نہ ہوتا تو آلودہ ہوا کو اس کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی بیماری یا جسمانی تکلیف بڑھ سکتی ہے اور جان بھی جاسکتی ہے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان تھا۔ خصوصاً وارڈ، مریض کا بیڈ، طبی آلات کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔

معالج اور سرجن بھی اپنے ہاتھ اور جراحی کے آلات نہیں دھوتے تھے۔ خون آلود ہاتھوں اور استعمال شدہ طبی آلات سے ایک کے بعد دوسرے مریض کا علاج یا آپریشن شروع کر دیا جاتا تھا۔ جراثیم کُش محلول تو ایک طرف معالجین میں‌ صابن جیسی کسی شے کے استعمال کا تصور تک نہ تھا۔

طبی سائنس نے کچھ ترقی کی تو مریضوں کو بے ہوش کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا اور ایک روز میڈیکل سائنس کے ایک طالبِ علم جوزف لسٹر نے دنیائے طب میں جراثیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ‘‘اینٹی سیپٹک’’ طریقہ متعارف کرایا۔

1883 میں اس نے طبی سائنس اور ماہرین کی توجہ حاصل کی اور بعد میں جراثیم سے متعلق مستند تحقیق اور سرجری کے حوالے سے اس کا خوب شہرہ ہوا۔

لسٹر نے زخموں کا سائنسی طرز پر مشاہدہ کیا اور لوئی پاسچر کے خرد بینی جانداروں کے مفروضے کا بغور مطالعہ کیا۔

جوزف لسٹر نے لوئی پاسچر کے جراثیم سے متعلق تصور پر تحقیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر زخموں‌ کو جراثیم خراب کرتے ہیں‌ تو ان کو کیمیائی طریقے سے مارا بھی جاسکتا ہے۔

اس کے لیے لسٹر نے ایک تجربہ کیا اور کاربولک ایسڈ (فینول) استعمال کیا۔

اسی دوران لسٹر کو ایک سات سالہ بچے کی شدید زخمی ٹانگ کا علاج کرنا پڑا اور اس نے زخم کی بدبُو، اسے مزید سڑنے اور پیپ وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے تجربہ کیا جو کام یاب رہا۔ بچے کے زخم بھی جلد ہی مندمل ہو گئے۔

یہ میڈیکل سائنس کی ایک زبردست اور نہایت مفید کام یابی تھی جس پر لسٹر نے باقاعدہ مقالہ لکھا اور یوں جراحی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اب آپریشن تھیٹرز میں صفائی اور علاج کے دوران جراثیم کو مارنے اور دوسری گندگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔ ان میں دستانے اور لیب کوٹ، آلات کو دھونا، آپریشن ٹیبل کی مخصوص محلول سے صفائی جیسے اقدامات شامل تھے۔

جوزف لسٹر کو دنیائے طب کا ایک عظیم مسیحا اور انسانوں کا محسن کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا، جہاں آج بھی ان کے نام پر کئی اسپتال اور میڈیکل کالجز قائم ہیں جب کہ دنیا بھر میں لسٹر کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں اور طب کے شعبے کے متعدد ایوارڈ لسٹر سے منسوب ہیں۔

Comments

- Advertisement -