تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

جوش ملیح‌ آبادی اور رحمت کا قصیدہ

شبیر حسن خاں جوشؔ شعر نہ کہتے تو کیا کرتے کہ پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر تھے، اور ان کے دادا بھی شعرو ادب کے شائق جب کہ والد بھی سخن ور۔

ان کے خاندان کی خواتین بھی قوافی و ردیف، بحور و اوزان سے واقف تھیں، دادی کا تعلق مرزا غالب کے خاندان سے تھا۔ اس ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں کی طبیعت بھی شعر و سخن کی طرف مائل ہوئی اور جوش تخلص کیا۔

ہندوستان کے ملیح آباد میں 1898 کوپیدا ہونے والے جوشؔ کو شاعری گویا ورثے میں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے نظم و نثر دونوں میں کمال حاصل کیا۔ اردو ادب میں انھیں قادرُالکلام شاعر اور باکمال نثر نگارکہا جاتا ہے۔

22 فروری 1982 جوش کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آج ان کی برسی ہے، آئیے شبیرحسن خاں جوش ؔکی یاد تازہ کرتے ہیں۔

جوش نے کہا تھا۔

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

ان کا تعلق تعلیم یافتہ اور علم و ادب کے رسیا گھرانے سے تھا، اسی لیے ابتدائی عمر ہی سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا رہا۔ نئے نظریات، فن و ثقافت، تاریخ و تہذیب اور جدید دنیا کے افکارِ تازہ ان کے سامنے آتے رہے۔

جوش نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ اس دوران فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج کی کج روی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔

پاکستان میں اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کاتو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے متنازع اور ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی ۔ دیگر نثر ی کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

وہ غریب دل کو سبق ملے کہ خوشی کے نام سے ڈر گیا
کبھی تم نے ہنس کے بھی بات کی تو ہمارا چہرہ اتر گیا

ہر چیز کائنات کی لبریزِ یاس ہے
دل کیا اداس ہے کہ زمانہ اداس ہے

نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

جوش ملیح آبادی کا یہ قطعہ دیکھیے۔

ہم کہیں گے کبھی نہ اس کو غریب
جس کو ملتی ہے اک حقیر رقم
اصل میں وہ غریب ہے جس کا
خرچ زائد ہو اور آمد کم

Comments

- Advertisement -