تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

نواز شریف کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کے والیم 10 میں کیا تھا؟ اے آر وائی نیوز نے پتا لگا لیا

اسلام آباد: نواز شریف کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کے والیم 10 میں کیا تھا؟ اے آر وائی نیوز نے پتا لگا لیا۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل نے اے آر وائی نیوز کو دیے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ والیم ٹین میں شریف خاندان کے مختلف ممالک میں مالی معاملات کے ثبوت ہیں، والیم ٹین میں ریاست کے خلاف والی کوئی بات نہیں تھی۔

جے آئی ٹی کے لیے واٹس ایپ والے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اس کو خوامخواہ اچھالا گیا، ہم نے جے آئی ٹی کے لیے حکومت سے نام مانگے تو کچھ نام بھیجے گئے، جب ان ناموں کو چیک کیا گیا تو ان کی دیانت داری پر بہت سوالات تھے، پھر رجسٹرار نے روٹین میں چیئرمین ایس ای سی پی کو واٹس ایپ پر نئے نام دینے کا میسج کیا۔

انھوں نے کہا نئے نام تو آ گئے لیکن ہم نے دیکھا اسی چیئرمین نے سیکرٹ معاملہ حکومت کو بتا دیا ہے، اس پر میں نے آبزرویشن دی کہ یہ تو حکومت کے زیر اثر ہیں، تو ہم کس طرح ان کا اعتبار کر سکتے ہیں، رجسٹرار کو تحریری طور پر بھی نام مانگنے چاہیے تھے لیکن انھوں نے روٹین میں واٹس ایپ کر دیا۔

جسٹس (ر) اعجاز افضل نے کہا جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے پاناما کے پہلے فیصلے ہی میں نواز شریف کو قصوروار ٹھہرا دیا، ان دونوں ججز نے کہا کہ نواز شریف کی اسمبلی میں تقریر اور قطری خط سب کچھ غلط ہے، جب میں تین رکنی بینچ کا سربراہ بنا تو ن لیگ کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ دوران سماعت اقامہ اور کمپنی سے معاہدہ سامنے آیا جسے وکلا نے تسلیم کر لیا، تنخواہ نواز شریف کے اکاؤنٹ میں آتی رہی لیکن اس کو ظاہر نہیں کیا گیا، قانون کہتا ہے کہ کاغذات جمع کراتے وقت پچھلے سال جون تک اثاثے ظاہر کرنے ہیں، تنخواہ جنوری 2013 میں واپس کی گئی مگر جون 2012 کو تنخواہ لے رہے تھے جو ظاہر نہیں کی گئی۔

اعجاز افضل کے مطابق یہ بھی نہیں کہا گیا تھا کہ تنخواہ ظاہر کرنا بھول گئے تھے، اگر یہ کہتے کہ بھول گئے تھے تو پھر معاملے کو دیکھا جا سکتا تھا، میں کسی کی بھی ساری زندگی کے لیے نااہلی کے خلاف ہوں، قطری خط ایک مفروضہ تھا جس کو نواز شریف ثابت نہ کر سکے۔

انھوں نے کہا جب وہ اصل دستاویز جے آئی ٹی نے لی تو معاملہ کھلا، 2006 میں تو کیلبری فونٹ کمرشل ہی نہیں تھا، مریم نواز نے دستاویز کو جعلی کہا تو معاملہ متنازع ہونے پر ہم نے اسے چھوڑ دیا، اسی دوران اقامہ سامنے آ گیا اور اس میں ایک معاہدہ اور کمپنی آ گئی، کمپنی میں نواز شریف کو بورڈ آف گورنر کا چیئرمین بنا کر 10 ہزار درہم ماہوار تنخواہ مقرر ہو گئی۔

انھوں نے مزید کہا کہ 2006 سے شروع یہ تنخواہ جنوری 2013 تک نواز شریف کے اکاؤنٹ میں جاتی رہی، نواز شریف کے وکلا خواجہ حارث اور سلمان اکرم سے پوچھا گیا تو دونوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا، تنخواہ نکلوائی نہیں گئی لیکن نکلوانے کا اختیار رکھتے تھے اور وہ انھی کی ملکیت تھی، اگر یہ نواز شریف کی ملکیت نہیں تھی تو بیٹے کو لاکھوں درہم کیسے واپس کر دیے۔

جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل کے مطابق ہم نے کہا یہ مستقبل کی تنخواہ کی بات نہیں بلکہ ساڑھے 6 سال یہ تنخواہ لیتے رہے، قانون کہتا ہے کاغذات جمع کراتے وقت پچھلے سال جون تک کے اثاثے ظاہر کرنے ہیں، نورے گامے کو اثاثے چھپانے پر سزا ہو سکتی ہے تو نواز شریف کو کیوں نہیں، زیادتی کرنے والے مجرم کو سزا کے 3 سال بعد انتخابات لڑنے کی اجازت ہے تو پھر ان کو کیوں نہیں؟

Comments

- Advertisement -