اسلام آباد : جسٹس فائزعیسیٰ نے ازخودنوٹس کےدائرہ اختیار اور تعین پرقائم بینچ پراعتراض اٹھا دیا اور کہا سپریم کورٹ کا دائرہ اختیارنہیں کہ اپنے ہی بینچ کےامورکی مانیٹرنگ شروع کردے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس فائزعیسیٰ نے ازخودنوٹس کےدائرہ اختیار اور تعین پرقائم بینچ پراعتراض اٹھا دیا، اپنے خط کے متن میں کہا ہے کہ 5رکنی لارجر بینچ بنانےسےقبل 2رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیارنہیں کہ اپنے ہی بینچ کےامورکی مانیٹرنگ شروع کردے۔
خط میں کہا گیا کہ 5رکنی معزز بینچ کو مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں، لارجر بینچ کاسماعت جاری رکھنا آئین سے تجاوز ہوگا، کوئی بھی شہری معلومات تک رسائی یااظہار رائے کی آزادی کی بات کر سکتا ہے ، میرےبینچ نےحکومتی حکام کوجواعتراض کیے ان پرکسی حکومتی فریق نےاعتراض نہ کیا، اگر کوئی اعتراض اٹھایا جاتا تو اس کوسنا جاتا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک بینچ دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ شروع کردےتو نظام عدل زمیں بوس ہو جائےگا، چیف جسٹس تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بینچ میں مقرر ہوگا، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ میں نےکبھی مجوزہ کازلسٹ جاری نہیں کی۔
خط کے متن کے مطابق سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقرر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، عدلیہ نےڈیپوٹیشن پرآئےملازمین واپس بھیجےلیکن رجسٹرارسپریم کورٹ کام کررہاہے، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار کے طور پر لیا گیا، رجسٹرار لانے کامقصدحکومتی دلچسپی کےمقدمات فوری فکس کرناتھا، رجسٹرار حکومت سے ادھار لانے کا مقصدحکومت کےناپسندیدہ کیسز کودباکررکھناتھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ موجودہ 5رکنی بینچ 9رکنی بینچ کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا، ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والےواٹس ایپ پیغام پرازخودنوٹس لیاگیا ، واٹس ایپ ازخودنوٹس کی وجہ سےقومی خزانے کو 100 ارب کا نقصان ہوا، نظر ثانی پرمرکزی بینچ میں شامل جج جسٹس اعجازالاحسن نےنظر ثانی سے اتفاق کیا۔
خط میں کہا گیا کہ ریکوڈک کیس میں پاکستان کوعالمی مقدمہ بازی کاسامنا کرنا پڑا ،6.4 ارب ڈالر کاجرمانے ہوا، میرے ساتھی ججز کو اعتراض تھا تووہ اس معاملے کوبینچ نمبر 2میں لے کر آتے، حیران کن طور پر معاملہ خفیہ رکھا گیاکہ مجھے سپریم کورٹ کی بجائے پریس سےمعلوم ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا 24 اگست کے حکمنامہ میں کہا گیا ہم اصل اسٹیک ہولڈرز کو سننا چاہتے ہیں، پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے اسٹیک ہولڈر ہے اور استدعا کی کہ خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے۔