سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے آئینی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر نہ کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور کیسز مقرر کرنے والی کمیٹی کے رکن ججز کو ایک اور خط لکھ دیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے خط میں لکھا کہ 29 اکتوبر کو شوکاز بھجوایا گیا جبکہ ابتدائی جواب میں، میں نے 3 ممبرز پر اعتراض دائر کیا تھا، مجھے سماعت کا نوٹس بغیر ایجنڈا بتائے جاری کیا گیا، میں نے 2 آئینی پٹیشنز دائر کیں۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ درخواست سماعت کیلیے مقرر کرنا تو دور ابھی نمبر تک نہیں لگایا گیا، درخواستیں سماعت کیلیے مقرر نہ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے، رجسٹرار کے پاس اختیار نہیں کہ وہ قابل سماعت ہونے کا معاملہ دیکھے۔
متعلقہ: جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور شوکاز نوٹسز چیلنج کردیے
انہوں نے کہا کہ درخواستیں سماعت کیلیے مقرر نہ ہونا بنیادی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے، رجسٹرار کو اختیار نہیں نوٹس میں پوچھے مقدمے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، رجسٹرار کے نوٹس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی درخواستوں کو جلد مقرر کرنے کیلیے متفرق درخواست بھی دی لیکن مقدمہ نہیں لگا، آئینی درخواستیں مقرر نہ ہونا پر یکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ روز جسٹس مظاہر نقوی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کو خط لکھا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میری طرف سے دائر آئینی پٹیشنز کی کو سماعت کیلیے مقرر کیا جائے، پہلے بھی خط میں 2 آئینی درخواستوں کو طے کرنے کی درخواست کی تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے باوجود درخواست کو نہ تو نمبر دیا گیا اور نہ عدالت میں مقرر کرنے کے عمل شروع ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت 14 دن میں درخواستوں کو سماعت کیلیے طے کرنے کی ذمہ داری دی گئی، سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی چیلنج کرنے والی 2 آئینی درخواستیں دائر کیں۔
انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ عبوری ریلیف کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، آئینی درخواستوں اور عبوری ریلیف کیلیے درخواستوں کے باوجود کونسل کارروائی کر رہی ہے، یہ عمل سپریم کورٹ کے سامنے آئینی درخواستوں کو سنگین طور پر متاثر کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے خط میں لکھا گیا کہ بدنیتی پر مبنی بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر میرے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے، آئینی درخواستوں پر سماعت طے کرنے میں مزید تاخیر میرے لیے شدید تعصب ہوگا، کارروائی کی بنیاد پر کوئی حکم صادر کیا جاتا ہے تو آئینی پٹیشنز میں استدعا کو متاثر کر سکتا ہے، 6 آئینی درخواستیں اور دائرعبوری ریلیف کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر کی جائیں۔