سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارشات تحریری طور پر جاری کردیں۔ گزشتہ روز صدر پاکستان عارف علوی نے بھی انہیں عہدے سے ہٹانے کی منظوری دے دی تھی۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلافتفصیلات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایت درست ثابت ہوئیں۔
کونسل نے اپنی سفارشات تحریری طور پر جاری کردیں۔ کونسل نے جسٹس شوکت عزیز کو آرٹیکل 209 کے تحت ملازمت سے خارج کرنے کی سفارش کی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ میرے خلاف شکایت کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، بار کو اعتماد میں لینا میری ذمہ داری تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز کا مؤقف قانون کے مطابق نہیں۔ کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو کمیشن کی درخواست ملی تھی، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 22 جولائی کو درخواست دی تھی۔
فیصلے کے مطابق ان کا موقف تھا کہ کمیشن عدالتوں پر دباؤ کی تحقیقات کے لیے بنایا جائے، 31 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز جاری کیا گیا۔ جسٹس شوکت عزیز نے 15 اگست کو شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ان کے جواب میں کہیں بھی تقریر کے مندرجات سے انکار نہیں کیا گیا، جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ میری باتوں کی تصدیق کونسل کا کام ہے، میرے خلاف الزامات مبہم ہیں۔ کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف تعصب رکھتی ہے۔
کونسل نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس شوکت عزیز نے عدلیہ پر الزام نہیں لگایا، الزامات عدلیہ پر دباؤ سے متعلق ہوتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز نے تقریر میں چیف جسٹس صاحبان کی تضحیک کی۔
فیصلے کے مطابق ایک جج کو اپنے ریمارکس اور فیصلوں میں بہت محتاط ہونا چاہیئے، جسٹس شوکت عزیز الزامات سے متعلق ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ جسٹس شوکت عزیز نے الزام لگایا پاناما کیس میں درخواست سننے سے روکا گیا، ان کا یہ الزام بھی بے بنیاد ثابت ہوا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم اٹارنی جنرل کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں، جسٹس شوکت عزیز کا رویہ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ پبلک میٹنگ میں اداروں پر الزام تراشی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
کونسل کا 39 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس آصف سعید نے تحریر کیا ہے۔