تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ممتاز ترقی پسند شاعر اور معروف فلمی نغمہ نگار کیفی اعظمی

کیفی اعظمی نے ابتدائی عمر میں رومانوی نظمیں کہیں، لیکن جلد ہی ہندوستان میں سیاسی اور سماجی تبدیلیوں اور انقلابی نعروں نے انھیں بھی قوم پرستی اور آزادی کے ترانے لکھنے پر آمادہ کرلیا۔

مارکسزم سے متاثر ہونے والے کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی رکن بنے تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انقلابی نظریات اور سیاسی واقعات کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ کئی پُراثر اور سوز و گداز سے بھرپور نظمیں سامنے آئیں۔ انھوں نے عوام کے جذبات اور ان کے دکھ سکھ کو اپنی شاعری میں سمویا اور ان کا کلام مقبول ہونے لگا۔ وہ نوعمری میں‌ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔

وہ انیس، حالی شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر نظر آئے۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر شاعری کے ساتھ انھوں نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں غیر معمولی شہرت اور کامی یابی ملی۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔ وہ ممتاز ترقی پسند شعرا میں شمار ہوئے اور فلم ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لیے مشہور ہیں۔

کیفی اعظمی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے تھا جہاں انھوں نے 15 اگست 1918ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام سیّد اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے مدرسہ بھیجا گیا، لیکن وہاں خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف احتجاج پر نام خارج کر دیا گیا۔ بعد میں‌ انھوں نے لکھنؤ اور الہ آباد یونیورسٹیوں سے فارسی میں دبیر کامل اور عربی میں عالم کی اسناد حاصل کیں۔ اسی زمانے میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے اور تب انھیں لکھنؤ چھوڑنا پڑا اور وہ کانپور چلے گئے جو اس وقت شمالی ہندوستان میں مزدوروں کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں وہ مزدوروں کی تحریک سے وابستہ ہو گئے اور یہیں انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ جب کیفی کمیونسٹ بن گئے تو سجّاد ظہیر کے ساتھ بمبئی چلے گئے جہاں پارٹی کے ترجمان "قومی جنگ” میں لکھنے لگے۔ 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور ان سے شادی ہوگئی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہوئیں اور کارکن گرفتار کیے گئے تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اختیار کی۔

اس زمانے میں‌ مفلسی نے بھی ان پر مصائب توڑے۔ کیفی نے فلموں کی طرف توجہ کی تو قسمت نے یاوری کی اور فلموں کے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے جن کا خوب معاوضہ ملنے لگا۔ انھیں تین فلم فیئر ایوارڈ ملے۔ کاغذ کے پھول، حقیقت، ہیر رانجھا اور گرم ہوا ان کی اہم فلمیں ہیں۔

زندگی کے آخری ایّام انھوں نے اپنے گاؤں میں گزارے اور 10 مئی 2002 کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔

Comments

- Advertisement -