تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں…کلیم عثمانی کا تذکرہ

کلیم عثمانی معروف گیت نگار اور غزل گو شاعر تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے ملّی نغمات بھی ہیں۔ وہ 28 اگست 2000 کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا، ان کا تعلق ضلع سہارن پور، دیو بند سے تھا جہاں وہ 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور یوں گھر کے علمی و ادبی ماحول نے کلیم عثمانی کو بھی شاعری کی طرف راغب کیا۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور یہاں لاہور میں سکونت اختیار کی۔

کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ مشاعروں میں‌ کلیم عثمانی کا ترنم مشہور تھا اور وہ خوب داد سمیٹا کرتے تھے۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ جب فلموں کے لیے گیت نگاری شروع کی تو کام یاب رہے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں وہ فلمیں‌ تھیں جن کے گیتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور کلیم عثمانی کی فلم انڈسٹری میں مصروفیت بڑھ گئی۔

آپ نے فلم راز کا یہ نغمہ ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے: میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. یہ اپنے وقت کا ایک مقبول گیت تھا جسے سرحد پار بھی پسند گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلموں میں بھی کلیم عثمانی کے تحریر کردہ نغمات کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور بعد میں‌ ریڈیو‌ کے ذریعے یہ گیت ہر زبان پر جاری ہوگئے۔

1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔

ملّی نغمات کی بات کی جائے تو کلیم عثمانی کی شاعری نے انھیں ملک بھر میں‌ عوامی سطح پر پہچان دی۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ باذوق قارئین نے ان کی یہ مشہور غزل ضرور سنی ہوگی۔

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

Comments

- Advertisement -