تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

حسن ۔ کاملیت اور توازن یا بصیرت کے اظہار کا نام؟

حسن یا خوبصورتی کی تعریف ہر شخص کی نظر میں مختلف ہوتی ہے۔ آپ خوبصورتی کی کیا تعریف کریں گے؟ 

بعض افراد کے مطابق خوبصورتی کاملیت کا نام ہے۔ کسی چیز کی زیادتی یا کمی اسے بدصورت بنادیتی ہے۔ ان کی نظر میں مکمل شے خوبصورت کہلاتی ہے۔

بعض افراد اسے ذہن پر ایک خوشگوار تاثر چھوڑنے والی شے کہتے ہیں۔ بعض فلسفیوں کا کہنا ہے کہ انسانی بصیرت اور عقل و شعور کے اظہار کا نام حسن ہے۔ بعض کے مطابق خوبصورتی وہ بھی کہلائے گی جو کسی کو بدصورتی کو چھپا دے۔

جس طرح ہر شخص کی نظر میں خوبصورتی کا معیار اور پیمانہ مختلف ہے، اسی طرح ہر مصور بھی خوبصورتی کی الگ الفاظ میں تشریح کرتا ہے۔ مصور کے خیالات اس کے برش اور کینوس سے تخلیق کی جانے والی تصویر سے جھلکتے ہیں۔ ایک فن پارہ اپنے تخلیق کار کی فکر کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔

ایسے ہی ایک مصور عمران زیب بھی ہیں جن کے فن پارے نہ صرف فطرت کی خوبصورتی کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں، بلکہ اپنے بنانے والے کے خیالات کی خوبصورتی کا بھی اظہار ہیں۔

عمران زیب خوبصورتی کی تکمیل کے لیے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور وہ ہے محبت۔ ان کے مطابق جس شے کو محبت، اور لطف کی نظر سے دیکھا جائے وہ خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔

ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ خوبصورتی توازن کا دوسرا نام ہے۔ ہر وہ شے جو توازن میں ہوگی خوبصورتی کہلائے گی۔

پاکستان اور بیرون ملک اپنے فن پاروں کی پذیرائی حاصل کرنے والے عمران زیب اس وقت پاکستانی مصوری کا ایک اہم نام ہیں۔ انہیں اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ان کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوچکی ہیں۔

اپنے بارے میں بتاتے ہوئے عمران زیب کا کہنا تھا کہ ان کے نانا کو مصوری اور دادا کو شاعری سے شغف تھا، لہٰذا گھر کا ماحول فن و ادب کی پرورش کے لیے نہایت موزوں تھا۔ ان کے بڑے بھائی انعام راجا بھی مصور تھے اور عمران نے مصوری کی باریکیاں و پیچدگیاں انہی سے سیکھیں۔

عمران نے بچپن میں روایتی رسمی تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ان کا رجحان آرٹ کی طرف تھا جس کا اظہار وہ مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک وغیرہ کے کارٹون بنا کر کیا کرتے۔

انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ بقول ان کے، وہ کراچی کے ایک آرٹ اسکول میں داخلہ لینے کی غرض سے گئے تو پرنسپل صاحبہ ان کی مصوری کی صلاحیت دیکھ کر متاثر تو بہت ہوئیں، مگر انہوں نے نہایت ہی بچگانہ سوالات شروع کردیے۔ ’حتیٰ کہ انہوں نے پوچھا کہ میں تصویر دن کی روشنی میں بناتا ہوں یا رات میں۔ میں ان کے یہ سوالات سن کر الٹے قدموں پلٹ آیا اور دوبارہ وہاں کا رخ نہیں کیا‘۔

عمران کے فن پاروں میں خوبصورتی کا بڑا دخل ہے۔ بقول ان کے، ان کے آس پاس موجود حسن نے انہیں مصوری پر مہمیز کیا۔ اب چاہے وہ حسن صنف نازک کا ہو، قدرت کا یا کسی خوبصورت جذبے کا۔

بقول ان کے انہیں مصوری کی تحریک اس خوبصورتی نے ہی دی تاہم وہ اسے ’تحریک‘ ماننے کی نفی کرتے ہیں۔ ’مصوری جنون ہے جو حسن جمالیات اور حسن لطافت سے پروان چڑھتا ہے‘۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے مصداق صنف نازک کے بغیر خوبصورتی کی تعریف ادھوری ہے اور عمران کے فن پارے بھی بارہا یہ باور کرواتے ہیں۔

یہاں بھی وہ توازن کو حسن کا لازمی جز خیال کرتے ہیں اور بار بار اس کا اظہار کرتے ہیں۔

صادقین ایوارڈ حاصل کرنے والے عمران زیب صادقین کے بھی بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ ان کے فن سے بے حد متاثر ہیں۔

عمران نے ڈیجیٹل آرٹ میں بھی طبع آزمائی کی اور اس کے ذریعہ ملالہ یوسفزئی، عبدالستار ایدھی اور فیض احمد فیض کا پورٹریٹ بھی تخلیق کیا ہے۔

بعض مصور اس فن میں اب بھی روایتی طریقوں کے حامی ہیں اور اس شعبہ میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی سے نالاں نظر آتے ہیں، تاہم عمران اس ٹیکنالوجی کو اپنے فن کو نکھارنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ’گرافکس، اینی میشن یا ڈیجیٹل پینٹنگ، یہ وہ ذرائع ہیں جس کے باعث مصور کی محنت اور کمپیوٹر کی مہارت یکساں ہوکر آرٹ کا ایک شاہکار تخلیق کر ڈالتی ہے‘۔

وہ اسے شارٹ کٹ تو نہیں مانتے، لیکن کسی مصور کی کامیابی کے لیے محنت اور مشق کو ہی اصل جز قرار دیتے ہیں۔


مصور کے بارے میں

عمران زیب کراچی سے تعلق رکھنے والے مصور ہیں۔ انہوں نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تاہم انہیں مصوری کی خداداد صلاحیت حاصل ہے۔

ان کے بھائی انعام راجا بھی مصور ہیں۔ ان کی مصوری پر مبنی کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنی صلاحیت کو مہمیز کرنے والے عمران زیب کو اب تک سندھ ثقافتی ایوارڈ اور صادقین ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کے فن پاروں کی نمائش نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی کی جاچکی ہے۔

انہیں انجینئر بننے کا شوق تھا، لیکن کوٹہ سسٹم کی وجہ سے انہیں انجینئرنگ میں داخلہ نہ مل سکا، جس کے بعد انہوں نے اپنے شوق کو آگےبڑھانے کا سوچا۔

Comments

- Advertisement -