تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

سندھ یتیم ہو گیا!

صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی جو کسی زمانے میں ملک کا دارالخلافہ تھا، اس کی سیاسی اہمیت اور سماجی حالت و حیثیت نہایت شان دار اور قابلِ ذکر تھی۔

شہر کی ممتاز اور نمایاں شخصیات اپنے قول، فعل اور کردار کی وجہ سے پہچانے جاتے، ہر جگہ عزت اور تکریم پاتے اور بڑی آن بان والے تھے۔

ہم یہاں پیر علی محمد راشدی کی کتاب "کراچی کی کہانی” سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو اس دور کی نام ور اور باوقار شخصیات اور اس زمانے کے سیاسی و سماجی حالات کی ایک خوب صورت جھلک پیش کرتا ہے۔

"سیاسی اعتبار سے کراچی میں سندھ کے بزرگوں کی بڑی تعداد تھی۔ ایک ہی وقت میں بڑے بڑے لوگ وہاں پیدا ہوتے رہے۔ سندھ کی سیاست کے تمام عروج و زوال وہیں پیش آتے۔ کس کس کا نام لیا جائے؟

مسلمان، ہندو، پارسی لیڈر، سب با وقار، اعلیٰ اخلاق کے صاحبان اور اعلیٰ اصول رکھنے والے۔

سیٹھ ہر چند رائے وِشنداس، جمشید مہتا، سر حاجی عبدالله ہارون، غلام علی چھاگلا، سیٹھ غلام حسین قاسم، واجا فقیر محمد درا خاں، میر ایوب خاں، طیّب علی علوی، حاتم علوی، خان بہادر ماما، خان بہادر ولی محمد حسن علی، بابا میر محمد بلوچ، حکیم فتح محمد سیوھانی، مولانا محمد صادق کھڈّے والے، مولانا عبدالکریم درس اور ان کے فرزند اور جانشین مولانا ظہور الحسن درس، شیخ عبد المجید سندھی، جہانگیر پنتھکی، سر جہانگیر کوٹھاری، سر کاوس جی جہانگیر، سر مونٹیگو ویب، اے ایل پرائس، خان صاحب بابو فضل الہی، محمد ہاشم گذدر، بی ٹی ٹھکّر، روپ چند بیلا رام، موتی رام عیدن مل، قاضی خدا بخش، قاضی عبدالرحمن اور دوسرے۔

1924 کے لگ بھگ سندھ کے دیہات کے کئی سربرآوردہ بزرگوں نے بھی کراچی میں بنگلے بنوا کر زیادہ تر وہیں رہنا شروع کر دیا، مثلاً سر شاہنواز خان بھٹّو، خان بہادر محمد ایوب کھوڑو اور جی ایم سیّد۔ ان کے کراچی میں رہنے کی بدولت سندھ کے مرکزی شہر کراچی اور سندھ کے دیہات کی سوچ بچار میں خاصی موافقت نظر آنے لگی۔

جب تک اس پائے کے بزرگوں کے ہاتھ میں سندھ کی سیاست رہی، سندھ کی شان اور مان ہی کچھ اَور تھا۔ خود ان لوگوں کا ذاتی کلچر اور بزرگی کا انداز پدرانہ اور مشفقانہ تھا۔ وہ صوبے کے تمام ماحول پر اثرانداز رہے۔

کس کی مجال تھی کہ اخلاق سے گری ہوئی بات کرے یا سیاست میں بداخلاقی کا مظاہرہ کرے۔ غرض یہ لوگ سندھ کے جملہ معاشرے کے ستون تھے۔ میں یہ فرق بخوبی محسوس کر رہا ہوں۔ ان کی آنکھیں بند ہونے سے سندھ یتیم ہو گیا ہے، نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا رہا نہ ہمت کر کے حق بات کہنے والا۔

Comments

- Advertisement -