تازہ ترین

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر امریکا کا ردعمل

واشنگٹن: امریکا نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)...

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

کراچی: پبلک ٹرانسپورٹ اور روٹ پرمٹ کی کہانی!

سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے۔ یہ ہم سنتے آئے ہیں، لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں بسوں میں سفر کرنا اذیت ناک ہے۔

ایک طرف تو کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی ہے۔ دوسری جانب خستہ حال بسیں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے شہریوں کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ اسی طرح سی این جی کی بندش کے دوران لوگ پریشان نظر آتے ہیں. کراچی سرکلر ریلوے، گرین لائن بس پروجیکٹ اور ایسے متعدد منصوبے یا تو اعلانات اور کاغذات تک ہی محدود ہیں یا پھر سست روی اور غفلت کی نذر ہو رہے ہیں۔

ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق کراچی کی ریجنل اتھارٹی نے شہر بھر میں مختلف بسوں اور کوچز کے روٹ غیر مؤثر کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ مقررہ روٹس پر پرمٹ تمام ہو جانا ہے۔ ایسی بسوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ جب کہ کوچز کی تعداد 50 بتائی گئی ہے۔

کیا ہے یہ روٹ پرمٹ؟
سادہ زبان میں کسی مسافر گاڑی کا مخصوص گزر گاہوں پر رواں دواں رہنے کا اجازت نامہ ہی روٹ پرمٹ ہے جو متعلقہ اداوں کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ اس کی باقاعدہ فیس وصول کی جاتی ہے جو صوبائی حکومت کے خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ یہ روٹ پرمٹ ختم ہو جائے تو ایسی پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹ غیرمؤثر قرار دیے جاتے ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اس حوالے سے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے جامع اور مربوط نظام نظر نہیں آتا جب کہ ماہرین کی نظر میں اس سلسلے میں باقاعدہ سروے کر کے معلومات اکٹھی کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ذریعے ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ماہرین کے مطابق دنیا کے تمام بڑے شہروں میں معیاری سفری سہولیات کی وجہ ایک جامع اور مضبوط سسٹم ہے جس کے تحت شہر کی سڑکوں پر ذرایع نقل و حمل اور آمدورفت کے حوالے سے عوام کی مشکلات دور کرنا آسان ہوتا ہے۔

شہریوں کی بھی سنیے!
ٹریفک کے نظام میں بہتری، سڑکوں کو کشادہ اور ان کی حالت بہتر بنانا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھانے کے علاوہ موجودہ ٹرانسپورٹروں کو قانونی تقاضے پورے کرنے پر آمادہ کرنا اور پابند بنانا ایک عام شہری کا کام تو نہیں ہے۔ حکومت اور انتظامیہ ہی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔

سنجیدہ و باشعور شہریوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومتِ سندھ کی عدم توجہی محض ایک تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس سلسلے میں شہری امور کے ماہرین کوتاہیوں، خامیوں اور غفلت سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار سامنے لاتے رہے ہیں اور میڈیا نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مطلوبہ اسٹاپ پر اترنے کے بعد آئینہ دیکھیں تو اپنی ہی صورت پہچانی نہیں جاتی۔ یوں لگتا ہے کہ کسی محاذِ جنگ سے واپسی ہوئی ہے۔

طلبا اور دفاتر میں کام کرنے والوں کی اکثریت شہر میں بسوں کی کمی کے ساتھ اب گیس کی بندش کی وجہ سے پریشان ہے اور انہی حالات میں بسوں کے روٹ پرمٹ کے حوالے سے خبر بھی سامنے آگئی ہے۔ ٹریفک حکام اس حوالے سے بس مالکان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کا پابند ضرور کریں، مگر شہریوں‌ کا کہنا ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سڑکوں سے مزید پبلک ٹرانسپورٹ غائب نہ ہو۔

Comments

- Advertisement -