تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

خدیجہ گائیبووا جسے صرف پندرہ منٹ میں‌ زندگی سے محروم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا

خدیجہ گائیبووا کے مقدمہ کی سماعت اور اس کا فیصلہ سنانے میں عدالت اپنے 15 منٹ صرف کیے اور اسے موت کی سزا سنا دی۔ فائرنگ اسکواڈ نے 27 اکتوبر 1938ء کو عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے خدیجہ گائیبووا کو ابدی نیند سلا دیا۔

46 سال کی عمر میں‌ موت کی سزا پانے والی خدیجہ گائیبووا اس زمانے کے آذر بائیجان کی مشہور ماہرِ موسیقی اور پیانو نواز تھی۔ یہ وہ دور تھا جب روس ایک عظیم متحد ریاست تھا، خدیجہ نے جارجیا کے خوب صورت شہر طفلیس (تلبیسی) میں آنکھ کھولی۔ وہ 24 مئی 1893ء کو عثمان مفتی زادے جیسے مسلمان عالم کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ والد نے 18 سال کی عمر میں خدیجہ گائیبووا کو بیاہ دیا تھا اور شادی کے بعد خدیجہ مسلمانوں‌ کے ایک مقامی اسکول میں تدریس سے منسلک ہوگئی۔

خدیجہ نے 1901ء سے 1911ء کے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پیانو جیسے ساز کو بجانے کی تربیت بھی حاصل کی۔ پیانو اس دور میں ایک مقبول ساز تھا جسے آذربائیجان اور روس بھر میں لوک موسیقی اور تفریحِ طبع کے لیے پسند کیا جاتا تھا۔ خدیجہ نے پیانو پر دھنیں‌ بکھیرتے ہوئے خوب مہارت حاصل کی۔ اس نے مشرقی اور لوک موسیقی کو نئے اور منفرد رجحانات سے متعارف کروایا۔

خدیجہ گائیبووا اپنے ملک کی پہلی باقاعدہ اور ماہر پیانو نواز تھی جو اس ساز پر ‘مغم’ (موسیقی کی مقامی صنف) چھیڑ کر مقبول ہوئی اور اسے آذربائیجان کی اوّلین باکمال موسیقار کہا جانے لگا۔ موسیقی اور پیانو کی ترویج و فروغ کے لیے خدیجہ نے بہت لگن سے کام کیا۔ وہ ملکی سطح پر فنِ موسیقی فروغ کے ادارے کی بانی کہلائی اور بعد میں اسے آذربائیجان میں مشرقی موسیقی کی تعلیم کے شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں خدیجہ گائیبووا نے لڑکیوں کو پیانو بجانا سکھایا اور انھیں‌ موسیقی اور آرٹ کی تعلیم دی۔ وہاں خدیجہ کی کوششوں سے باقاعدہ میوزک کلاسوں کا اہتمام کیا جانے لگا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب متحدہ روس اور اس خطّے میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔

انقلابِ روس اور جوزف اسٹالن کی قیادت میں‌ نئی سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کا آغاز ہوا تو اپنے مخالفین کی گرفتاریوں اور جاسوسی یا غداری کے الزامات کے تحت انھیں‌ موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔

خدیجہ گائیبووا ایک فن کار ہی نہیں‌ تھی بلکہ سماج اور سیاست سے متعلق اس کے افکار اور نظریات بھی اسے بے چین رکھتے تھے۔ وہ اپنے حلقۂ احباب اور شاگردوں میں‌ ان کا اظہار بھی کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 1933ء میں اسے انقلابی سرگرمیوں کے الزام تحت گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین ماہ تک نظر بند رہی اور اس عرصے میں خدیجہ پر جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہوسکا تو اس کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا گیا۔ رہائی کے اگلے ہی سال اسے لوک موسیقی کے ایک محقّق کی حیثیت سے ملازمت بھی مل گئی۔

اس زمانے میں متحدہ روس میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ وہاں بیرونِ ممالک سے موسیقار، ادیب اور شاعر ہی نہیں دانش وروں اور باشعور لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ یہ لوگ روس کے اس زمانے کے میوزک "سیلون” میں جمع ہوتے تھے جن میں‌ ترکی کے فن کار اور آرٹ کے شائقین بھی شامل تھے۔ سوویت حکام کو یہ اطلاع ملتی رہتی تھی کہ علم و فنون کے فروغ کی آڑ میں‌ کچھ لوگ سیاسی اور قیادت مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ترکی سے آنے والے فن کاروں کا نام سامنے آیا جس کے بعد روسی حکام کے ترکی کی حکومت سے تعلقات میں کچھ بگاڑ آیا۔ روسی جاسوس خدیجہ گائیبووا کی نگرانی کررہے تھے۔ 17 مارچ 1938ء کو گائیبووا کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور اس پر حکومت مخالف جماعت سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ پانچ ماہ تک پوچھ گچھ اور تفتیش جاری رہی جس میں‌ خدیجہ بے قصور ثابت ہوگئی، لیکن اسے رہائی نصیب نہ ہوسکی اور غیرمنصفانہ طریقے سے کارروائی کو بڑھا کر عدالت کے ذریعے خدیجہ سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔

Comments

- Advertisement -