تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

صوفی خالق ولی کا آٹھ سو سال پرانا مقبرہ

ملتان سے تقریباً 53 کلومیٹر دور اور قدیم جرنیلی سڑک سے ڈیڑھ کلومیٹر مغرب کی طرف جائیں‌ تو مقبرہ خالد ولید موجود ہے جو مسلم فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کے قدیم مزارات میں سے ایک ہے۔

صاحبِ مقبرہ کا نام خالد ولید ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے دور میں‌ خالق ولی کے نام سے معروف ہوئے۔ محققین کے مطابق یہ بزرگ اور صوفی اپنے وقت کے مشہور سپاہ سالار سلطان محمود غزنوی کے ساتھ برصغیر آئے اور یہیں زندگی تمام کی۔ ماہرینِ‌ آثار کا کہنا ہے کہ ان کا مقبرہ ملتان کے ایک گورنر علی بن کرماخ نے غوری عہد میں 1175ء سے 1185ء کے درمیان تعمیر کروایا۔ تاہم اس تعمیر اور طرزِ تعمیر سے متعلق محققین کی مختلف آرا ہیں۔ بعض اسے مغل حکم راں شاہ جہاں اور چند نے اورنگ زیب عالم گیر کے عہد کی یادگار کہا ہے۔

یہ مقبرہ دو کنال پر محیط ہے اور یہ زمین سے 27 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس کی فصیل نما دیوار کے چاروں کونوں پر گول برج بنائے گئے تھے جب کہ دس فٹ چوڑی فصیل کے درمیان میں ایک محراب ہے جس کی گولائی میں خطِ کوفی سے آیت الکرسی، اسم محمدﷺ اور خلفائے راشدین کے نام کندہ ہیں۔ مقبرے کی عمارت پکی اینٹوں سے تیار کی گئی ہے۔

مقبرے کے مشرقی و شمالی اطراف میں کشادہ محراب نما کھڑکیاں ہیں جب کہ مزار کا فرش اور قبر کو کچا رہنے دیا گیا تھا۔ زمین سے مزار تک پہنچنے کے لیے 30 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔

اس تاریخی اہمیت کے حامل مقبرے کی دیکھ بھال کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں‌ کیا گیا ہے جب کہ ماضی میں اس لگ بھگ نو صدی پرانے مقبرے کی مرمت اور تزئین و آرائش کا برائے نام کام کیا گیا۔ حوادثِ‌ زمانہ اور موسم کی سختیاں دیکھنے والے اس مقبرے کی اینٹوں نے ذرا اپنی جگہ چھوڑی تو لوگوں‌ نے اس کی محراب کے اطراف اور بیرونی حصّے کو مزید نقصان پہنچانا شروع کردیا اور یہاں‌ کی اینٹیں‌ اکھاڑ کر لے جاتے رہے، لیکن 1985 میں ایک خاتون امریکی سیّاح اور محقق نے اس کی نشان دہی کی تو اس عمارت کی ذمہ داری سرکار نے اٹھا لی جب کہ محکمہ آثارِ‌ قدیمہ نے اس کی مرمت و بحالی کے لیے منصوبے بھی بنائے۔ تاہم یہ کام کاغذات تک محدود رہا اور ضروری مرمت اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ تاریخی ورثہ برباد ہورہا ہے۔

Comments

- Advertisement -