ہندوستان میں طبّ کے شعبہ سے وابستہ کئی مسلمان اطبا نے اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر نہ صرف عام مریضوں کا کام یاب علاج کیا بلکہ ان کا شمار برصغیر کے ماہر طبیب اور نبّاض کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مرض کی تشخیص میں مہارت اور ان کے مطب کی شہرت ایسی تھی کہ دور دور سے لوگ ان کے پاس آتے اور شفا پاتے۔ یہی نہیں بلکہ کئی حکیم شاہی خاندان کی شخصیات، نواب و امراء کے معالج بھی رہے۔
اردو ادب سے متعلق مضامین اور اقتباسات پڑھیں
یہ ایسے ہی مشہور و معروف اور نہایت قابل حکمیوں کا تذکرہ ہے جو خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے نکلا ہے اور ان کی کتاب ‘منزلیں گرد کی مانند” میں شامل ہے۔ یہ کتاب خلیق ابراہیم خلیق کی زندگی کی جوانی کی خود نوشت ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کو آپ بیتی سے زیادہ ایک تہذیب کی سرگزشت کہا ہے۔ مصنّف نے لکھنؤ میں شعور کی آنکھیں کھولیں۔ ان کی پیدائش حیدر آباد دکن کی تھی۔ خلیق ابراہیم خلیق کے والد حکیم محمد رفیق ابراہیم بھی نہ صرف اپنے زمانہ کے ممتاز طبیب تھے بلکہ طبّ کا درس بھی دیتے تھے۔ خلیق صاحب کی کتاب سے یہ پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:
لکھنؤ کے علمی خاندانوں میں علمائے فرنگی محل کے علاوہ سب سے زیادہ شہرت اطبائے جھوائی ٹولہ کو حاصل ہوئی۔ اس خانوادے کے بانی حکیم محمد یعقوب (۱۷۹۰ء تا ۱۸۷۰ء) کے دادا مولوی عبد الصمد محدث، کشمیر سے ترک وطن کر کے ۱۷۵۰ء کے لگ بھگ دہلی آئے جہاں ان کے بیٹے مولوی غلام نبی محدّث پیدا ہوئے۔ دہلی سے دونوں باپ بیٹے آصف الدولہ کے عہد میں لکھنؤ آئے اور یہیں مولوی غلام نبی محدّث کے ہاں حکیم محمد یعقوب کی ولادت ہوئی۔ حکیم یعقوب اودھ کے آخری چار بادشاہوں کے دور میں لکھنؤ کے سب سے بڑے طبیب تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے مجاہدین مولوی احمد اللہ اور احمد خان تلوریے (ماہر شمشیر زنی) کی اعانت کے باعث انھیں کچھ عرصے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ملیح آباد میں روپوش رہنا پڑا۔ حکیم یعقوب کی اولاد میں اگلے سو سال میں متعدد نامور طبیب پیدا ہوئے جن کے دست شفا کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ اطبا، طبّ کی تعلیم حاصل کرنے سے قبل عربی، فارسی زبانوں، دینی علوم اور مروجہ علوم شرقیہ، منطق، فلسفہ، صرف و نحو، تاریخ وغیرہ کی تکمیل کر چکے ہوتے تھے۔ اسی لیے ان کا ذہنی افق بہت وسیع اور ان کی نگاہِ فن بہت گہری تھی۔ حکیم یعقوب کے سب سے بیٹے حکیم ابراہیم (وفات ۱۸۸۲ء) کے کمال فن کا قصہ آپ سن چکے ہیں۔ وہ شعر بھی کہتے تھے اور حکیم تخلّص کرتے تھے۔ شاعری میں منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی کے شاگرد تھے۔ گارساں دتاسی نے انیسویں صدی کے اردو شعرا میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حکیم ابراہیم کے چھوٹے بھائی حکیم محمد اسمعیل (وفات ۱۸۸۶ء) اور حکیم محمد مسیح (وفات (۱۸۸۵ء) اور حکیم ابراہیم کے بیٹے حکیم محمد عبدالعلی (وفات ۱۹۰۵ء) بھی انیسویں صدی کے یکتائے روزگار طبیب تھے۔
میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد جنھیں قریب سے دیکھا ان میں شفاء الملک حکیم عبد الحمید، حکیم محمد عبد القوی، حکیم محمد عبد المجيد، حکیم محمد عبد الحلیم، حکیم محمد بشیر ابراہیم مخمور، حکیم محمد رفیق ابراہیم، شفاء الملک حکیم محمد عبد المعید اور شفاء الملک حکیم محمد عبد اللطیف شامل ہیں۔ آخر الذّکر دونوں اطبا بھارت کے صدر کے اعزازی معالجین خصوصی میں بھی شامل رہے۔ یہ سب اسی ترتیب سے وفات پاچکے ہیں جس ترتیب سے میں نے ان کے نام لکھے ہیں۔ اس خاندان کی ایک اور اہم شخصیت حکیم عبدالوالی (وفات ۱۹۴۱ء) کی تھی۔ انھوں نے علی گڑھ کالج سے گریجویشن کیا اور طب یونانی کے بجائے ادب اور سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
اطبائے جھوائی ٹولہ میں سے اکثر نے طبّی موضوعات پر عربی، فارسی اور اردو میں رسائل اور مقالات تحریر کیے۔ ان میں مشاہدے، مطالعے، تجسس اور غور و فکر کی قوتیں بہت تیز تھیں۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں۔ میں صرف ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ آل انڈیا کانگریس کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1911ء کے صدر پنڈت بشن نرائن در کے خاندان سے علیم عبد الولی کے قریبی تعلقات تھے۔ کشمیری پنڈتوں کا یہ خاندان کشمیری محلّے میں رہتا تھا۔ جھوائی ٹولے اور کشمیری محلّے کے درمیان ایک چھوٹا محلہ کٹرہ بزن بیگ تھا۔ جس میں مولانا عبدالحلیم شرر کا آبائی مکان تھا۔ دَر خاندان کے ایک فرد روزانہ علی الصبح دریائے گومتی میں اشنان کے لیے جاتے تھے۔ واپسی میں حکیم عبدالولی کے مطب میں جو ان کے راستے میں پڑتا تھا، حکیم صاحب سے سلام دعا کے لیے چند منٹ رکتے تھے، پھر گھر جاتے تھے۔ ایک دن اپنی معمول کی حاضری کے بعد پنڈت جی مطب سے چلے گئے تو حکیم عبدالولی نے اپنے شاگردوں سے، جو نسخہ نویسی کے لیے مطب میں حاضر رہتے تھے، کہا کہ "پنڈت جی زیادہ دن زندہ نہیں رہیں گے۔ اب جو وہ مطب میں آئیں تو انھیں غور سے دیکھنا۔ ان کے انتقال کے بعد میں تم سے ان کے مرض کی بابت پوچھوں گا۔” پنڈت جی حسب معمول دو چار دن مطب میں آتے رہے اور پھر خبر آئی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ حکیم عبد الولی کے شاگرد پنڈت جی کی موت کا سبب نہ بتا سکے تو انھوں نے شاگردوں کو ان کے مرض کے بارے میں بتایا۔ حکیم عبدالولی نے کہا کہ "پنڈت جی دریا میں نہانے کے بعد گیلے بدن پر دھوتی باندھ کر اسی کا ایک ٹکڑا جسم کے اوپری حصے پر لپیٹ لیتے تھے۔ پھر پوجا پاٹ کر کے چندن کا قشقہ یا تلک لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ آتے آتے ان کی دھوتی اور قشقہ دونوں خشک ہو چکے ہوتے تھے۔ ادھر چند روز سے میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی دھوتی اور قشقہ بالکل خشک نہیں ہوتے۔ ہر روز ان کی نمی بڑھ جاتی ہے اور مطب میں پنڈت جی کے آنے کے وقت میں بھی تاخیر ہو جاتی ہے۔ جس روز میں نے ان کی رحلت کی پیش گوئی کی ہے ان کی دھوتی اور قشقہ دونوں خاصے گیلے تھے اور وہ اپنے مقررہ وقت کے بعد خاصی تاخیر سے مطب میں آئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی حرارت غریزی ( جسمانی حرارت) تقریباً ختم ہو چکی تھی اور جسمانی قوتیں جواب دیتی جارہی تھیں۔ مرض کا حملہ بے حد تیز تھا اور اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔” (اس واقعے کو حکیم سید ظل الرّحمن نے تذکرۂ خاندانِ عزیزی میں ذرا مختلف طریقے سے لکھا ہے اور پنڈت جی کو در خاندان کے بجائے شرغا خاندان کا بتایا ہے۔ میں نے یہ واقعہ اپنے دادا حکیم عبد القوی سے اسی طرح سنا تھا۔ وہ حکیم عبد الولی کے چھوٹے بھائی تھے اور در خاندان سے ان کے بھی قریبی روابط تھے) حکیم عبدالولی نے جدید زمانہ پایا تھا۔ اپنے علاج میں وہ بڑی جدّت اور اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ انھیں سیاست سے بھی شغف تھا اور شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ کے معاملے میں بہت باذوق واقع ہوئے تھے۔ مہینے میں دو ایک بار محافلِ موسیقی کا اہتمام کرتے جن میں باکمال موسیقار شریک ہوتے تھے۔ وہ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ حکیم عبدالولی نے زندگی کی صرف انتالیس بہاریں دیکھیں۔ عمر نے وفا کی ہوتی تو برصغیر کے مطلعِ سیاست پر بھی حکیم اجمل خاں کی طرح چمکتے۔
حکیم عبد القوی جید طبیب ہونے کے علاوہ سیاسی رہنما اور شعلہ بار مقرر تھے۔ برصغیر کی جدوجہدِ آزادی میں انھوں نے بھرپور عملی حصہ لیا۔ وہ شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ کا نہایت اعلٰی ذوق رکھتے تھے اور فنِ موسیقی کے ماہر تھے۔ خود بہت اچھا گاتے تھے۔ گلا، نور کے سانچے میں ڈھلا ہوا پایا تھا۔ آواز کی کھرج اور سوز دل میں اتر جاتا تھا۔ نمازِ فجر کے بعد اپنے بالا خانے پر کلامِ پاک کی تلاوت کرتے تو نیچے گلی میں لوگوں کا مجمع لگ جاتا۔ آخر عمر میں تصوف سے شغف بڑھ گیا تھا۔ انھوں نے دو طویل مقالے "فلسفۂ تصوف ” اور "فلسفۂ موسیقی” لکھے جنھیں الناظر بک ڈپو لکھنؤ نے کتابی صورت میں شائع کیا۔
حکیم عبد القوی کے علاوہ حکیم عبد المعید، حکیم محمد رفیق ابراہیم، حکیم عبد اللطیف اور حکیم محمد بشیر ابراہیم مخمور کو شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ سے بہت لگاؤ تھا۔ حکیم عبدالولی تو صرف ادب و فن اور سیاست ہی کے آدمی تھے، لیکن قومی و ملّی سیاست میں بھرپور حصہ صرف حکیم عبد القوی، حکیم عبد الوالی اور حکیم محمد رفیق ابراہیم نے لیا۔
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


