تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔

Comments

- Advertisement -