تازہ ترین

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف نے سعودی وزیر...

سعودی وفد آج اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کرے گا

اسلام آباد : سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن...

گردوں کے امراض کے کیا اسباب ہیں؟ نئی تحقیق

چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن افراد کو اکثر ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بعد کی زندگی میں گردوں کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے جس کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے اور اس میں مبتلا شخص جب اس کا شدت سے شکار ہوتا ہے تو یہ متعدد ذہنی و جسمانی امراض کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں ڈپریشن کی علامات اور گردوں کے امراض کے شکار افراد میں گردوں کے افعال میں تیزی سے کمی کو دریافت کیا تھا۔ اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈپریشن کسی فرد کے گردوں کے صحت مند افعال پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔

چین کی سدرن میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4 ہزار 700 سے زیادہ ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے گردے صحت مند تھے۔ تحقیق کے آغاز میں ان رضاکاروں میں سے 39 فیصد میں ڈپریشن کی شدید علامات موجود تھیں اور ان کا جائزہ 4 سال تک لیا گیا۔

اس عرصے میں 6 فیصد کے گردوں کے افعال میں بہت تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔ محققین کے مطابق تحقیق کے آغاز میں ڈپریشن کی علامات اور آنے والے برسوں میں گردوں کے افعال میں تیزی سے آنے والی کمی کے درمیان نمایاں تعلق موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اکثر ڈپریشن کی علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے افعال میں کمی کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 1.4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

گردوں کے دائمی امراض دل کی شریانوں سے جڑی بیماریوں، گردے فیل ہونے اور اموات کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ثابت ہوتے ہیں تو ان امراض کا خطرہ بڑھانے والے عوامل کی شناخت سے متعدد پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

محققین نے کہا کہ اگر نتائج کی مزید تصدیق ہوئی تو ہمارے ڈیٹا سے کچھ شواہد مل سکیں گے کہ کس طرح ڈپریشن کی علامات کی اسکریننگ سے گردوں کے امراض کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جلد جریدے سی جے اے ایس این میں شائع ہوں گے۔

Comments

- Advertisement -