تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

صدیوں پہلے ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم تھا اور خود کو بہت عقل مند سجھتا تھا۔ وہ اکثر حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیتا تھا، مگر ان کی فلاح و بہبود پر کچھ توجہ نہ تھی۔ رعایا اس بادشاہ سے تنگ آچکے تھے اور خدا دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔

بادشاہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلوں پر اس کی تعریف کرتے اور اس کو قابل اور نہایت ذہین کہتے۔ بادشاہ کو وہ لوگ ناپسند تھے جو اس کی کسی غلط بات کی نشان دہی کرتے اور اس کے فیصلے پر تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشیر بھی شامل تھا جو بادشاہ کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جس کی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

وہ مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو جائز ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں سے سخت بیزار تھا اور ان کو غلط مشورے دینے سے روکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے کہ اس مشیر کو بادشاہ کے سامنے ذلیل کر سکیں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان لوگوں کو موقع مل گیا۔

ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا، اسے یہ وقت مناسب لگا کہ وہ مشیر کو اس کی حق گوئی کی سزا دے سکے۔ اس نے کہا کہ مشیر کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہوگی اور حکم دیا کہ اسے گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروئے کار لا کر کمائے اور خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورتِ دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔

بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے، پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔ یہ سن کر اصطبل کے ملازمین پریشان ہو گئے کیوں کہ وہ گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔ انہوں نے مشیر کی منت سماجت شروع کر دی اور کہا کہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے۔ اس کے عوض مشیر جو کہے وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے ان سے حاصل کیے اور خزانہ میں جمع کروا دیے۔

ادھر بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ لہٰذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کرنے کا حکم دے کر اسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے، بصورتِ دیگر اُس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرےم یں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ کرے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائے۔ چونکہ تم سب زیادہ سواریاں اٹھاتے ہوں اس لیے سزا کے لیے تیار رہنا۔

تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دیں گے اور آیندہ زیادہ سواریاں نہیں اٹھائیں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دیے۔

دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دیے ہیں اور ضرور اُس کو خوش ہوکر مشیر سے ترقی دے کر وزیر بنا دیا جائے گا۔

بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر اس دفعہ بھی کام یاب ہوگیا ہے تو وہ دل ہی دل میں غُصہ کرنے لگا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کہ وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مجھے دکھا رہی ہے کہ تُم مجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہلِ علم کو اپنے دربار سے یوں رسوا کر کے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ ٹھیک سات دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتور پڑوسی ملک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چکا تھا جو ہمیشہ اُسے اپنی ذہانت سے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے۔ اس نے خوشامدی اکٹھے کر رکھے تھے۔ وہ اُسے اس جنگ سے کیسے بچاتے۔ بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا نیچے دھکا دے دیا۔

Comments

- Advertisement -