تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

اپریل 1914 میں بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ نے ہندوستان کے ساحل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس جہاز پر 376 مسافر اپنے پیاروں کی جدائی کا کرب سہنے کے لیے خود کو کب کا آمادہ کرچکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تیرتا نم جب جب کم ہوتا تو ان سے وہ خواب جھلکنے لگتا جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سات سمندر پار جارہے تھے۔

یہ مسافر خوش حال اور آسودہ زندگی کی خاطر ایک نئی سرزمین پر بسنے کا خواب آنکھوں میں‌ سجائے وطن سے دور جارہے تھے۔

برطانوی راج میں پنجاب سے روانہ ہونے والے ان مسافروں میں 337 سکھ، 27 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے۔ ان میں سے 24 کو کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن 325 مسافروں کی مراد پوری نہ ہوسکی اور انھیں ہندوستان لوٹنے پر مجبور کردیا گیا جہاں ایک حادثہ ان کا منتظر تھا۔

ان نامراد مسافروں میں 20 ایسے بھی تھے جنھیں واپسی پر زندگی سے محروم ہونا پڑا۔

اس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے سفر پر کوئی پابندی یا کسی قسم کی قید نہ تھی۔ طویل سفر کے بعد جب بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ کینیڈا کے ساحل سے قریب تھا تو اسے بندر گاہ سے تین میل دور پانی میں روک لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ انھیں کینیڈا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر بحری جہاز کے کپتان نے قانونی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور صلاح مشورے کے بعد ایک وکیل کے ذریعے حکام کے خلاف مقدمہ کردیا گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب آج کے ترقّی یافتہ اور مہذّب معاشروں میں نسلی امتیاز اور ہر قسم کی تفریق عام تھی۔ خاص طور پر کینیڈا میں اس وقت ’وائٹ کینیڈا‘ نامی تحریک زوروں پر تھی اور کہا رہا تھاکہ کینیڈا صرف گوروں کا وطن ہے، اس وقت نسل پرستوں کی جانب سے ان سیکڑوں ہندوستانیوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

ہندوستانیوں کے وکیل کو بھی نسل پرستوں کی جانب سے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ تاہم مقدمہ دائر ہوچکا تھا جو طول پکڑتا گیا اور کوما گاتا مارو کے مسافروں کی مشکل اور ان کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ جہاز پر ذخیرہ شدہ خوراک اور غذائی اجناس ختم ہوجانے کے بعد نوبت فاقے تک آگئی اور مسافر بیمار پڑ گئے۔

مسافر زیادہ دن تک اس مشکل کا مقابلہ نہیں کرسکے اور لوٹ جانے میں عافیت جانی۔ یوں یہ جہاز ہندوستان کی جانب روانہ ہوا، جہاں اس کے مسافروں پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑی۔

یہ بحری جہاز 27 ستمبر کو ہندوستان میں کولکتہ کے ساحل کے قریب پہنچا تو اسے وہاں مسلح نگرانوں نے روک لیا اور مسافروں کو پنجاب کے مفرور اور باغی سمجھ کر اُن پر گولیاں برسا دیں۔ بیس مسافر جان سے گئے۔ اس وقت کے حکام کا خیال تھا کہ یہ لوگ ’غدر پارٹی‘ کے باغی ہیں جو اُن دنوں شمالی امریکا میں سرگرمِ عمل تھی۔

یہ واقعہ کینیڈا جیسے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق و مساوات کے علم بردار ملک میں اس وقت جاری نسلی امتیاز اور تعصّب کے ایک بدترین دور کی یاد دلاتا ہے۔

مغربی بنگال میں ’کوما گاتا مارو‘ اور اس کے بدقسمت مسافروں کی ایک یادگار بھی موجود ہے جسے 1952 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔

Comments

- Advertisement -