تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

کرشن چندر کی خیالی بینچ

انسان کے دل میں ایک شہر ہوتا ہے۔ اس کی گلیاں اور بازار ہوتے ہیں، جہاں یادوں اور مُرادوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ اس کی دکانوں میں ہزاروں طرح کی تمنائیں بکتی ہیں، خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔

اس کے کارخانوں میں محنت سانس لیتی ہے۔ اور اس کے باغوں میں کبھی کبھی چاند چمکتا ہے۔ اور پھول مہکتے ہیں اور آہستہ خرام جوڑے ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خاموش نگاہوں سے محبّت کا پیام دیتے ہیں۔

دل کا شہر بھی انسان کے شہر کی طرح بستا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کام کرتا ہے۔ ہنستا ہے اور روتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے دن آتے ہیں جب ہر لمحہ عید ہوتا ہے۔ ہر یاد اک نیا جوڑا پہن کر نکلتی ہے۔ ہر تمنّا بنی سنوری ہتھلیوں میں حِنا کی منقش تصویریں سجائے، ہر اُمنگ ننھے ننھّے بچّوں کی طرح خوشی سے ہنستی ہوئی، کلکاریاں مارتی ہوئی ہر آرزو جوان اور بلند مستقبل کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دل کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آتی ہے۔ اور خوشیوں کے میلے میں اور مسرتوں کے ازدحام میں کھو جاتی ہے۔

مگر آج اس شہر میں کیسا سناٹا ہے؟ آج دل کی پُر پیچ گلیوں اور بازاروں اور سڑکوں پر اندھیرا ہے۔ آج کہیں پر روشنی نہیں ہے۔ آج کوئی مراد نہیں چلتی، کوئی آرزو نہیں بکتی، کوئی اُمنگ نہیں ہنستی۔ آج سارے دریچے بند ہیں اور سارے دروازے مقفّل ہیں اور سارے بازار خالی ہیں۔ صرف کہیں کہیں نکڑ پر چند بوڑھی یادیں گزرے ہوئے ایّام کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہی ہیں۔

آج سارا شہر خالی ہے۔ آج سڑکوں پر روشنی نہیں۔ باغوں میں چاند نہیں، پیڑوں میں پھول نہیں۔ آج وہ بینچ بھی خالی ہے جہاں ہم یادوں کی محفل سجایا کرتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے بعد یہ بینچ ہمیشہ خالی رہے گا۔

انسان کا دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ وہ کسی یاد کو تو ایک خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ جو زندگی بھر ایک ہی چوکٹھے میں جڑی، ایک ہی دیوار پر ٹنگی ایک ہی زاویے سے دکھائی دیتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج کے بعد میں اس باغ میں کبھی نہیں جا پاؤں گا۔ جہاں میں اپنے محبوب کے ساتھ خیالوں میں گھومنے جایا کرتا تھا۔ اس خیالی بینچ پر کبھی نہ بیٹھ پاؤں گا جہاں میرے ہاتھ خود بخود محبوب کے ہاتھوں میں آجاتے تھے۔

نہیں، وہ خیالی بینچ آج کے بعد ہمیشہ خالی رہے گا۔

(کرشن چندر کے ناول ‘باون پتّے’ سے مقتبس)

Comments

- Advertisement -