تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

للّو لال کوی کے قلم سے نکلی ایک دل چسپ کہانی

منشی للّو لال کوی فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہندوستانی مصنّف، مترجم اور فاضل تھا۔ کہتے ہیں اسی نے ایک نئی زبان تشکیل دیتے ہوئے ادب میں اردو ہندی تنازع کا ڈول ڈالا تھا۔ لطائفِ ہندی اسی للّو لال کوی کی تصنیف کردہ ہے جس سے قدیم زبان اور ہمارے لیے ‘اجنبی’ الفاظ کے ساتھ ایک پُر مزاح حکایت یہاں نقل کی جارہی ہے۔ یہ کہانی کتاب کے اوّلین ایڈیشن کا حصّہ تھی جو 1810ء میں شائع ہوا تھا۔

کسی راجا کے یہاں بکٹ خاں نام کَلاوَنت (گویّا) بہ سبب گانے بجانے کے بہت پیش ہوا۔ ایک دن اس راجا پر کوئی غنیم (فوج کا لشکر) چڑھ آیا تو اس نے بھی لڑنے کی تیاری کی اور اپنے رفیقوں کو ہتھیار گھوڑے بانٹے۔

اس وقت بکٹ خاں سے راجا نے کہا کہ تم بھی سلح خانے سے ہتھیار اور اصطبل سے گھوڑا اپنی پسند کے موافق لے لو۔ کل تمھیں بھی ہمارے ساتھ لڑنے کو چلنا ہوگا۔ اس بات کے سنتے ہی اس کی جان تو سوکھ گئی، پَر مارے شرم کے “بہت خوب” کہہ کر گھوڑا اور ہتھیار پسند کر کے کسی بہانے سے اپنے گھر آیا اور جورو سے کہنے لگا کہ اس شہر سے ابھی بھاگ چلو۔ نہیں تو راجا کے ساتھ کل مرنے کو جانا ہو گا۔

اس کی جورو عقل مند تھی، بولی: جو لڑائی میں جاتا ہے سو بے اجل نہیں مرتا۔ یہ کہہ اس نے چکّی میں چنے دَل کر دکھائے اور کہا کہ دیکھ جس طرح اس میں دانے ثابت رہ گئے، ایسے لڑائی میں بھی لوگ بچ رہتے ہیں۔ (یہ سن کر) بکٹ خاں اپنی بیوی سے بولا: (اس میں) جو پِس گیا سو میں ہوں۔ اس کم ہمتّی کو دیکھ اُس کی عورت جھنجھلا کر بولی کہ سُن جو تُو ایسے نمک حرامی کر اُس (راجا) کا ساتھ چھوڑے گا تو میں بھی تیرا ساتھ نہ دوں گی۔

یہ سن کر شرما کے لاجواب ہو کے راجا کے پاس بھور ہی جا حاضر ہوا اور ہتھیار لگا گھوڑے پر سوار ان کے ساتھ ہو لیا۔ جس وقت میدان میں دونوں دَل تُل کر لڑنے کو تیّار ہوئے اور لگا مارو بجنے (جنگی نغمہ یا طبلِ جنگ) اور گولی گولا بان دونوں اور (طرف) سے چلنے لگے اور اس کا گھوڑا بھڑکنے لگا، تس وقت بکٹ خاں نے مارے ڈر کے راجا سے عرض کی کہ مہاراج! (میں) ہوں گرتُ ہوں۔ پَر راجا سمجھا کہ یہ کہتا ہے میں حریف کی فوج پر گروں۔ بولا ایسا کام بھی نہ کیجیو۔ تم میرے ہاتھی کے ساتھ اپنا گھوڑا رکھو۔ دو تین مرتبہ راجا سے اس نے کہا اور راجا نے یہی جواب دیا۔ نادان گھوڑا اسے حریف کے غول میں لے ہی گیا، تب بکٹ خاں نے کمر سے دُپٹا کھول پھرایا۔

اُس راجا کے لوگ اِس کے پاس آئے اور پوچھا: تُو کیا پیغام لایا ہے؟

بولا: مجھے گھوڑے سے اتارو تو کچھ عرض کروں۔ انھوں نے اسے گھوڑے سے اتارا۔ تب یہ(بکٹ خاں) بولا کہ تم کس لیے لڑتے ہو، جس طرح کی معاملت چاہو گے سو ہمارا راجا قبول کرے گا۔ اُس (حریف فوج کی سلطنت کے راجا) نے کہا کہ دس لاکھ رُوپے دے اور اپنی بیٹی ہمارے بیٹے کو بیاہ دے۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔

وہ بولا: یہ بات ہمارے راجا کو قبول ہے۔ میں اس کا جواب کل دے جاؤں گا، تم خاطر جمع رکھو۔ اس بات کے سنتے ہی خوش ہو کر اُس راجا نے اسے ایک بھاری خلعت اور بہت سے رُوپے دے رخصت کیا اور لڑائی موقوف کی۔

دوسرے دن بھور(صبح) ہی یہ راجا جب چڑھ کھڑا ہوا تب اُس راجا (حریف) نے کہلا بھیجا کہ کل تو تمھارا وکیل تمھاری طرف سے دس لاکھ رُوپے اور بیٹی دینا قبول کر گیا ہے، اب کیوں لڑنے کو تیار ہوئے ہو۔ یہ سنا تو راجا نے کہا کہ دیکھو کون آدمی ہماری طرف سے وہاں جا کر یہ بات کہہ آیا ہے، وِسے میرے پاس لاؤ۔ غرض تحقیق کر کے لوگ بکٹ خاں کو ہاتھوں ہاتھ راجا کے پاس لے گئے۔ تب کسی مصاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو کس کے حکم سے دس لاکھ رُوپے اور لڑکی دینے کا اقرار کر آیا؟

بکٹ خاں بولا: اسے حکم کیا چاہیے، جو اس گھوڑے پر چڑھے گا سو اقرار ہی کر آوے گا۔ اس بات کے سنتے ہی راجا نے خفا ہو کر اُسے لشکر سے نکال دیا اور اس پر بڑا افسوس کیا۔ اس میں کوئی مصاحب بول اٹھا کہ مہاراج! آپ نے جو اتنا افسوس کیا سو کیا، یہ مثل نہیں سنی؎

جس کا کام تِسی کو چھاجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے

Comments

- Advertisement -