تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

اسکندریہ کے عظیم کتب خانے کی بربادی

کہتے ہیں کسی ملک پر لشکر کشی کے بعد قتل و غارت گری اور شہروں‌ میں لوٹ مار سے وہاں کے لوگوں‌ کو ظاہری اسباب اور وسائل سے ضرور محروم کیا جاسکتا ہے، لیکن کسی قوم کو مکمل طور پر اپاہج اور نادار بنانا ہو تو اس کے کتب خانوں کو برباد اور اس کی ثقافت کو مٹایا جاتا ہے۔

تاریخ‌ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں‌ کہ جنگوں‌ کے دوران فاتح فوج نے علم و فنون کے مراکز اور کتب خانوں‌ کو جان بوجھ کر تباہ کیا اور دشمن ملک کی تہذیب و ثقافت کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ یہاں ہم قدیم کتب خانۂ اسکندریہ کا ذکر کررہے ہیں‌ جسے مختلف ادوار میں مکمل طور پر برباد کردیا گیا۔

مشہور ہے کہ اسکندریہ میں بطلیموسی فرماں روا سوتر اوّل نے جس کتب خانے کی بنیاد رکھی تھی، اسے اُس کے علم پرور اور صاحبانِ کمال کے قدر دان بیٹے، فیلاڈلفس (Philadelphus) نے اس قابل بنا دیا کہ یہ ایک عظیم علمی و ثقافتی مرکز بن گیا۔ عالم فاضل شخصیات وہاں‌ اکٹھا ہوئیں‌ اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔

قبلِ مسیح کا یہ کتب خانہ شاہی سرپرستی میں قائم ہوا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسے وسائل کی کمی نہ تھی۔ کتب خانۂ اسکندریہ میں کتابوں کا ذخیرہ زیادہ تعداد میں پیپرس (قرطاسِ مصری) اور جھلّی کے رول (پلندوں) پر مشتمل تھا۔

یونانی عہد کے کتب خانوں میں غیر ملکی کتب بھی موجود تھیں جن میں زرتشت کی تحریریں اور بعض سنسکرت کی کتابوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ کتب اور مخطوطات باہر سے آنے والوں‌ سے حاصل کیے جاتے تھے اور یہ کتب بحقِ سرکار بھی ضبط کی جاتی تھیں جب کہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کتب خانے کو لوگ قدیم نسخے اور نادر مخطوطات بخوشی فروخت کرتے، کیوں‌ کہ انھیں منہ مانگے دام دیے جاتے تھے۔

بعض مؤرخین کے مطابق کتب خانۂ اسکندریہ میں مسودات کی تعداد 2 لاکھ تھی، بعض کے مطابق 5 لاکھ اور چند ماہرین نے یہ تعداد 7 لاکھ بتائی ہے۔ اس دور میں مصری، عبرانی، لاطینی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی کتب اور نسخے یہاں‌ موجود تھے جن کو47 قبل مسیح میں روم کے جولیس سیزر کے لشکر نے آگ لگا دی تھی۔

یہ کتب خانہ تقریباً سات صدیوں تک بلاتخصیص ہر تشنہ کو سیراب کرتا رہا، لیکن اس کا انجام عبرت ناک تھا۔ یونانی عہد میں تھیوفلسِ اعظم (Patriarch Theophilus) کے حکم پر اس کے لشکر نے کتب خانے کی ان گنت کتابوں کو ضایع کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کتابیں ان کے مذہب کے لیے خطرہ ہیں۔ رہی سہی کسر اورلین (Aurelian) کے عہد میں خانہ جنگی نے پوری کر دی۔

مؤرخین کے مطابق جب قیصر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو یہ کتب خانہ مکمل طور پر برباد کردیا۔ اس طرح ظہورِ اسلام سے سیکڑوں سال پہلے اس دانش گاہ کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔

Comments

- Advertisement -