تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کراچی کو کیا چاہیے؟

تحریر: عمیر حبیب

کراچی، ایک ایسا شہر جس کی آبادی میں ایک عام اور محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تین سے چار فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔

قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں میونسپل کارپوریشن کے ذریعے شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا نکالا جاتا رہا ہے اور بعد میں بھی ہر دور میں مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا گیا، مگر سن 2000 میں لوکل باڈی سسٹم کو بہتر بناتے ہوئے شہر کی ترقی اور تعمیر میں اس کی اہمیت اور افادیت کو گویا تسلیم کیا گیا۔

اس دور میں مقامی نظامِ حکومت کے تحت شہر کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور 178 کے قریب یونین کونسلوں کو فعال کیا گیا جس سے نہ صرف علاقائی سطح پر مسائل کو حل کیا جانے لگا بلکہ شہر میں کئی نئے پروجیکٹس پر کام شروع ہوا۔ ان میں 20 منزلہ آئی ٹی ٹاور ہو یا فلائی اورز، شہر میں نوکری اور روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوئے اور بے روزگاروں‌ کی بڑی تعداد اس کے سہارے معاشی میدان میں خود کو مضبوط اور مستحکم کرنے لگی، لیکن سیاسی کھینچا تانی میں یہ نظام کہیں‌ پیچھے رہ گیا۔

آج یہ شہر سیاسی مداخلت سے پاک، بااختیار، تمام ضروری وسائل اور ہر قسم کی مشینری سے لیس لوکل حکومت چاہتا ہے اور بس۔

جس طرح علاقے کے اراکینِ اسمبلی کا کام قانون سازی اور دیگر شعبوں سے متعلق ہے اسی طرح شہری مسائل حل کروانا اور اس نظام کو جاری و ساری رکھنا عدلیہ کا نہیں بلکہ لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔

کراچی میں بڑھتا ہوا ٹریفک اور آمد و رفت بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام اس وقت پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں ہے جب کہ اس حوالے سے لوکل سطح پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح بے شمار مسائل اور کام ہیں جو علاقائی سطح پر اور لوکل نظام کے تحت ہی مستقل بنیادوں پر اور طویل مدت کے لیے حل ہوسکتے ہیں۔

یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی خوش حالی کا راز اس کے لوکل نظام میں ہی چھپا ہے، جہاں ہر شہری اور علاقائی مسئلے کے حل کے لیے وفاقی، صوبائی حکومت یا عدالت سے رجوع نہیں کرنا پڑتا بلکہ میونسپل کارپوریشن میں صرف ایک درخواست دینے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کا نظام بھی حکومت کے پاس ہے جو کبھی اور کسی قسم کے احتجاج کی نذر نہیں ہوتا۔

اگر ہمارے ملک میں عوامی امنگوں اور جذبات کو اہمیت دی جائے اور سیاسی میدان میں ہوا کا رخ دیکھ کر نیک نیتی سے بروقت فیصلہ کیا جائے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ "بلی چاہے سفید ہو یا کالی دیکھنا یہ چاہیے کہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔”

موجودہ حکومت کی کوشش ہے اور دعویٰ بھی کہ وہ ملک کا نظام درست کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ہر قسم کی خرابی دور کی جائے گی تو کیا ہی اچھا ہو کہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو مضبوط بنانے اور اسے اختیارات دینے کی طرف بھی قدم بڑھایا جائے جس کے تحت شہریوں کے بنیادی مسائل علاقائی سطح پر حل ہوسکیں۔ اس حوالے سے تمام سیاسی قیادتوں اور صوبائی حکومتوں کو سوچنا چاہیے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر مسائل کا حل مل سکے۔

(بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

Comments

- Advertisement -