جامعہ لندن کے کتب خانہ کا قیام ۱۸۳۸ء میں ہوا، اس کی عمر کا مقابلہ جب ہم آکسفورڈ اور کیمبرج کے جامعاتی کتب خانوں کی سینکڑوں برس کی زندگی سے کرتے ہیں تو جامعہ لندن کا یہ کتب خانہ ہمیں ان کے مقابلے میں ایک طفل شیرخوار نظر آنے لگتا ہے۔
تاریخ و ادب پر مختلف تحقیقی اور دل چسپ مضامین پڑھیں
مزید برآں نہ تو آکسفورڈ یونیورسٹی کے کتب خانہ کی طرح اسے (Thomas de Cabham) طامس ڈی کبھم اور (Sir Thomas Bodley) سر طامس بودلے کے سے بے لاگ اور مخلص کام کرنے والے ملے اور نہ کیمبرج یونیورسٹی کی مانند صدیوں تک اسے شاہی سرپرستی کا شرف حاصل رہا۔ جامعہ لندن کے کتب خانہ کی ترقی کا راز دراصل قوانین حقِ تصنیف اور وہ بے شمار عطیات ہیں جن کی بنا پر اس قلیل عرصے میں یہ اب اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ اس کا شمار یورپ کے بڑے جامعاتی کتب خانوں میں ہونے لگا ہے۔
کتب خانے میں قارئین کو مطالعہ کی اجازت سب سے پہلے ۱۸۷۷ء میں دی گئی۔ جس کے لیے ایک خاص ضابطہ مرتب کیا گیا تھا۔ اس ضابطہ کے تحت جامعہ کی مجلس عاملہ اور مجلس قوانین کے ارکان اور ان اشخاص کو جن کی مجلس نے سفارش کی ہو، کتب خانہ سے تین ماہ کے لیے صرف چھ جلدیں مستعار لینے کی اجازت تھی۔ نئی تجاویز کی بنا پر ۱۹۰۰ء میں کتب خانہ کو (Burlington Garden) ’’برلنگٹن گارڈن‘‘ سے (South Kensington) ’’ساؤتھ کینسنگٹن‘‘ منتقل کر دیا گیا اور پھر تنظیم جدید کے بعد ۱۹۰۷ء میں بحیثیت امیر جامعہ (Earl of Roseberry) ارل آف روزبری نے کتب خانہ کا افتتاح فرمایا۔ کتب خانہ کے لیے یہ عمارت بھی کچھ دنوں کے بعد ناکافی ثابت ہوئی۔ لہٰذا جامعہ نے ’’بلومیسری‘‘ (Bloomsbury) میں ایک اور عمارت بنوانے کا ارادہ کیا۔ یہ عمارت تقریباً چوبیس سال کی انتھک کوشش کے بعد گزشتہ سال تیار ہوئی ہے اور جامعہ کا کتب خانہ اب اس نئی عمارت میں منتقل ہوگیا ہے۔
جامعہ لندن کے کتب خانہ میں تقریباً تین لاکھ کتابیں ہیں۔ یہ مجموعہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ اوّل عام کتب خانہ جہاں سے طلباء اپنے مطالعہ کے لیے کتابیں مستعار لے سکتے ہیں۔ دوسرے (Reference Library) ’’ریفرینس لائبریری‘‘ یعنی ’’حوالہ جاتی کتب خانہ‘‘ جس میں گولڈ اسمتھ کمپنی کا معاشی کتب خانہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اور تیسرے علمِ موسیقی کا کتب خانہ۔ جو اپنے عام مقاصد کی تکمیل کے علاوہ علم موسیقی کے تمام ساز و سامان اور لوازمات سے مزین ہے تاکہ طلباء اعلیٰ درجے کی موسیقی سے بھی واقف ہوسکیں۔
عام کتب خانہ میں دو لاکھ پچاس ہزار کتابیں ہیں۔ اس میں جامعہ کے نصاب اور مختلف مضامین کی تمام حوالہ جاتی کتابیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ لوگوں کے عطا کیے ہوئے کتابوں کے ذخیرے اور خاص کتب خانے ہیں۔ جن میں سے حسبِ ذیل خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
ڈی مارگن لائبریری (ہندسہ و نجوم کا کتب خانہ)
گروٹ لائبریری (تاریخ و سیاسیات کا کتب خانہ)
شالیفری لائبریری (روسی ادب کا کتب خانہ)
لیڈی ولبی (مذہبی کتابوں کا مجموعہ)
پریڈی میموریل لائبریری (فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ کا کتب خانہ)
ڈرننگ لارنس لائبریری (انگریزی ادب کا کتب خانہ)
کیوک میموریل لائبریری (تعلیمیہ کتب خانہ)
گولڈ اسمتھ کمپنی لائبریری (معاشی کتب خانہ)
میوک لائبریری (موسیقی کا کتب خانہ)
سفری کتب خانہ۔ مخطوطات وغیرہ وغیرہ۔
کمیِ وقت کی وجہ سے میں آپ کو آج ان میں سے صرف چند کا مختصر حال سنا سکوں گا۔
گولڈ اسمتھ کمپنی کا معاشی کتب خانہ
پروفیسر ایچ۔ ایس۔ فوکس ول کے معاشی کتب خانہ گولڈ اسمتھ کمپنی نے ۱۹۰۱ء میں خرید کر لندن کی نذر کردیا تھا۔ جامعہ نے اس تمام ذخیرے کو مرتب و مجلد کیا۔ اس کی فہرست تیار کرائی اور جوں جوں زمانہ گزرتا گیا جامعہ کی طرف سے اس میں متواتر اضافہ ہوتا رہا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اب اس کا شمار مسلمہ طور پر دنیا کے بہترین معاشی کتب خانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس ذخیرے میں تقریباً (۵۵۴۰۰) کتابیں اور پمفلٹ ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو ممالک برطانیہ کی صنعتی تجارتی، زراعتی اور مالیاتی تاریخ کے ماخذات کے مطالعہ میں سہولت ہو اور دوسری طرف ان کے ذریعے سے خود علم معاشیات کی عام ترقی کی رفتار کا حال بھی معلوم ہوتا رہے۔
یہ مجموعہ انگلستان کی معاشی تاریخ کی حد تک مکمل ہونے کے علاوہ ان فرانسیسی معاشین کے متعلق بھی خاصا جامع ہے جو صنعتی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے اثناء میں زندہ تھے۔ مزید برآں امریکہ اور اطالیہ، اسپین، جرمنی اور ہالینڈ کے مختلف النوع معاشی نظریوں کے متعلق بھی کافی کتابیں اس مجموعہ میں موجود ہیں۔ اس شعبہ معاشیات میں منجملہ اور مضامین کے حسب ذیل مضامین کی پوری توضیح اور تشریح کی گئی ہے۔ تجارت انگلستان، کمپنیوں اور نوآبادیات کی ابتدائی تاریخ، قوانین جہاز رانی، میلے اور بازار، تاریخ زراعت، تجارت خارجہ کا ارتقاء (بالخصوص مشرقی ہندوستانی تجارت کا ارتقاء) فرانسیسی اور امریکی تجارت، اٹھارویں صدی کا انقلاب زمینداری۔ برطانوی صنعتوں کا ارتقا، بلدیاتی اور سیاسی اصلاحات، تحریک امداد باہمی۔ اشتراکیت اپنی جملہ نوعیتوں کے ساتھ ترک وطن اور تحریک آبادیات وغیرہ وغیرہ۔
تصانیف کے اصلی نسخوں کے علاوہ اس لائبریری میں اکثر بیش بہا معاشی مجلوں اور جامعاتی اشاعتوں کے مجموعے بھی موجود ہیں اور جہاں تک ممکن ہوسکا ہے کتب خانہ کی تنظیم میں اس امر کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مایہ البحث مسؤلہ ہو تو اس کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والی کتابیں جمع کی جائیں تاکہ کتب خانہ صحیح معنوں میں اپنے زمانے کی نیابتی اور تاریخی حیثیت اختیار کر لے۔
گولڈ اسمتھ لائبریری کے مطالعہ کا کمرہ بہت شان دار ہے۔ یہ تقریباً ۸۷ فٹ لمبا اور ۳۳ فٹ چوڑا ہے۔ کتابوں کی الماریاں اور اخروٹ کی لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔ چھت صنوبر کی لکڑی کی ہے اور چوکوں پر سنہری پٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھنے میں نہایت دلفریب اور عام اثر کو دوبالا کر دیتی ہیں۔ آکسفورڈ میں بھی گو (Bodlein) بودلئین لائبریری کے ڈیوک ہمفری کے شعبہ کی چھت اسی قسم کی لکڑی کی ہے مگر اس میں سنہری پٹیوں کے نہ ہونے سے ذرا بھدا پن سامعلوم ہونے لگا ہے۔ گولڈ اسمتھ کے معمار نے شاید اس کمی کو محسوس کرکے اس طرح پورا کر دیا ہو۔ کمرے کے مشرقی اور مغربی جانب کھڑکیوں میں موٹے رنگین شیشے لگے ہوئے ہیں جس سے آفتاب کی تمازت میں کمی ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح جلدوں کا رنگ پھیکا نہیں ہونے پاتا۔
اس شعبے کی نمایاں خصوصیت خاص تحقیق کرنے والوں کے واسطے کمرے ہیں۔ کتابوں کی الماریوں کی دیوار سے لگی ہوئی قطار ایک حصے میں باقاعدہ فصل کے ساتھ اس طرح آگے کو نکلی ہوئی ہے کہ ان کے درمیان خالی جگہ کے خوبصورت خانے سے بن گئے ہیں۔ انہیں ’’کیرلس‘‘ (carrels) کہتے ہیں۔ یہ خاص تحقیقاتی کام کرنے والوں کے لیے مختص ہیں۔ ا یک لکھنے کی میز، کرسی، مطالعہ کا لیمپ اور ایک چھوٹی سی الماری ہوتی ہے جس میں پڑھنے والا اپنا مسودہ یا دوسرا سامان مقفل کرسکتا ہے۔ بعض کیرلس میں اسنیڈ کنویر (Snead conveyer) بھی لگی ہوئی ہیں۔ یہ ایک قسم کی ٹوکری ہوتی ہے۔ طالب علم اگر کوئی کتاب بیٹھے بیٹھے منگوانا چاہے تو وہ اس کتاب کانام ایک پرچے پر لکھ کر اس کو ٹوکری میں ڈال دیتا ہے اور کھٹکا دبانے سے وہ پرچہ سنٹرل کاؤنٹرپر پہنچ جاتا ہے۔ لائبریری اسسٹنٹ مطلوبہ کتاب ٹوکری میں رکھ دیتا ہے اور پھر وہ طالب علم کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ مقصد ان کیرلس کا یہ ہے کہ طالب علم اطمینان سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکیں اور کوئی چیز ان کے مطالعہ میں مخل نہ ہو۔ کتب خانوں میں کیرلس کا رواج سب سے پہلے ۱۹۱۵ء میں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی نے شروع کیا تھا۔ اور اب ۲۵ برس کے عرصے میں ہر بڑے کتب خانہ کاایک لازمی جز بن گئے ہیں۔
کوئک میموریل لائبریری (تعلیمی کتب خانہ)
تعلیمی کتب کا یہ ذخیرہ انگلستان کے مشہور پادری ریورئینڈ رابرٹ ہربٹ کوئک (Revr R. Herbert Quick) کی ملکیت تھا۔ پادری صاحب کے انتقال کے بعد ان کی بیوی نے اپنے شوہر کی وصیت کے مطابق یہ کتب خانہ لندن ایجوکیشنل گیلڈ کے سپرد کر دیا تھا۔ لیکن جب بعد میں یہ محسوس ہوا کہ جامعہ لندن میں اس سے مستفید ہونے کے زیادہ امکانات ہیں تو ارباب اقتدار نے نہ صرف کوئک کی کتابیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہنری ویجری اور دیگر اصحاب کے تعلیمی ذخیرے بھی یونیورسٹی کے حوالے کر دیے۔ کتابوں کے اس طرح یکجا جمع ہوجانے سے یہ کتب خانہ تعلیمی اصول و عمل اور تاریخ پر یورپ کے سارے کتب خانوں پر سبقت لے گیا۔
پریدی میموریل لائبریری
آثار قدیمہ اور فنون لطیفہ کا یہ کتب خانہ جامعہ لندن کے ایک ہونہار سپوت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ جان نولٹنؔ پریدی نے جامعہ سے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور بعد میں یونیورسٹی کے ’’ایکس ٹنشن ڈپارٹمنٹ‘‘ کے سکریٹری مقرر ہوگئے تھے۔ ۱۹۱۷ء میں جنگ عظیم میں کام آئے۔ آثار قدیمہ اور فنونِ لطیفہ سے بے حد دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی یادگار کے طور پر ان کی ماں مسز پریدی نے ۱۹۲۲ء میں ایک بڑی رقم بنک میں جمع کرا دی تھی جس کی آمدنی سے یہ کتب خانہ قائم ہوا۔
موسیقی کا کتب خانہ
۱۹۲۵ء میں جب موسیقی کو بھی جامعہ کے نصاب تعلیم میں شریک کرلیا گیا تو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ علم موسیقی سے متعلق ایک اچھا کتب خانہ قائم کیا جائے، چنانچہ ایک سال بعد سرجارج الویؔ کے عطیہ سے اس کاقیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد (Mrs. L. H. Bennett) مسز ایل۔ ایچ۔ بینٹ۔ ڈاکٹر (Dr. Paul Haus) پالس ہوس اور سرپرسی بک (Sir Percy Buck) نے بھی اپنی بے شمار کتابیں کتب خانہ کو مستعار دے دیں۔ خوش قسمتی دیکھیے کہ کچھ عرصے بعد جب الفرڈ ہنری لیٹلٹن لائبریری کانیلام ہوا تو اس کتب خانے کے بھی بہت سے اچھے نسخے جامعہ لندن نے خریدلیے۔ لیٹلٹن کے اس ذخیرے میں پندرھویں، سولہویں اور سترہویں صدی کے ناٹک اور ڈرامے لاجواب ہیں۔
امتحانات کے لیے خاص کتابیں
حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ جامعہ میں جو خاص مضامین پڑھائے جاتے ہیں ان کی تیاری کے لیے بھی تمام حوالہ جاتی کتابیں کتب خانہ میں دستیاب ہوسکیں۔ طالب علموں کو وقت ضرورت ان کتابوں کو ایک ماہ تک کے لیے مستعار لینے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی اور شخص اس کتاب کا طالب نہ ہو تو طالب علم مزید ایک ماہ کے لیے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
مخطوطات
جیسا پہلے بیان کیا جاچکا ہے جامعہ لندن کے کتب خانے کی عمر صرف (۱۰۲) ایک سو دو سال ہے۔ اس لیے انگلستان کے اور بڑے کتب خانوں اور پرانی جامعات کے ذخیروں کی طرح قدیم مخطوطات کے جواہر پارے اس کو ورثے میں نہیں ملے۔ پھر بھی مخطوطات کے بعض نسخے ایسے موجود ہیں جو جامعہ کے لیے باعث ناز ہیں۔ ان میں سے ’’شہزادہ اسود کی سوانح حیات‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ کتاب فرانسیسی زبان میں ہے اور مثنوی کے پیرائے میں لکھی گئی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سرجان جیندوس کے مشیر خاص جیندوس نے ۱۳۵۸ء یعنی شہزادہ اسود کے تقریباً نو سال بعد اس کو لکھا ہوگا۔ مثنوی میں شہزادہ اسود کے جنگی کارناموں اور فتوحات کا تفصیلی حال ہے جس سے جنگ صد سالہ کے واقعات پر خاص روشنی پڑتی ہے۔
کتابوں کا انتخاب
کتابوں کے انتخاب کے لیے مہتمم کتب خانہ جامعہ کے تمام شعبہ جات کے پروفیسروں سے مشورہ کرتا ہے کہ ان کو اپنے اپنے مضامین اور طالب علموں کے مطالعہ کے لیے کون سی کتابیں درکار ہیں۔ اس رائے دہی کے لیے مطبوعہ پرچے ہیں جن میں کتاب مؤلف اور پبلشر کا نام، اس کا سنہ طباعت، خصوصیات اور اگر کسی رسالے یا اخبار میں اس پر تنقید وغیرہ چھپی ہو تو اس کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ رائے دہی کے پرچے طالب علموں سے بھی لیے جاتے ہیں اور کتب خانہ کے اسٹاف سے بھی۔ یہ تمام پرچے جمع ہو کر ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں جس کو Accession کمیٹی کہا جاتا ہے، اس کے ارکان لائبریرین اور پانچ پروفیسر ہیں۔ خریدی کتب کی اس کمیٹی کا اجلاس ٹرم کے زمانے میں ہر ہفتے ہوتا ہے۔ اجلاس سے پہلے کتابوں کی نئی فہرست تمام ارکان کے پاس گشت کرا دی جاتی ہے اور ہر شعبے کے لیے جو رقم کتب خانہ میں مخصوص ہوتی ہے اس کا اندراج بھی کر دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک تختہ بھی مرتب کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ہر شعبے پر کتنی رقم خرچ ہوئی اور کتنی باقی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں پر نظر رکھنے کے بعد ارکان کمیٹی کو انتخاب کتب میں کتنی سہولت ہوگی۔
کتابوں کے علاوہ رسالوں کا انتخاب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ جامعہ کے کتب خانہ میں بڑی پابندی سے تقریباً ایک ہزار رسالے آتے ہیں جن میں سے اکثر کی مکمل اشاعتیں جاری ہونے کے وقت سے اب تک محفوظ ہیں۔ یہ رسالے مختلف زبانوں میں ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک سے شائع ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جس کے اچھے رسالے جامعہ کے دارالمطالعہ میں موجود نہ ہوں۔
(جامعہ لندن کا کتب خانہ کے عنوان سے یہ مضمون مسعود یزدانی کے قلم سے نکلا ہے جس سے چند پارے حذف کردیے گئے ہیں، تاہم اس سے مضمون کا ربط اور مفہوم متاثر نہیں ہوا ہے)
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


