تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

اگافیا لائیکوف اور سائبیریا کی نیلی آنکھ!

روس میں سائبیریا کے ویرانوں میں واقع بیکال جھیل کا شمار دنیا کی گہری ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین جھیل ہے۔

ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ تین کروڑ سال پرانی ہے۔ جھیل چار سو میل لمبی اور ایک میل گہری ہے۔ سال میں پانچ ماہ یہ جھیل برف کی تقریباً ایک میٹر موٹی تہ سے ڈھکی رہتی ہے۔

سائبیریا ہماری زمین کا خوب صورت مگر انسانی حیات کے رہنے بسنے کے اعتبار سے ایک خوف ناک علاقہ بھی ہے، کیوں کہ جنوری 2018ء میں یہاں درجۂ حرارت منفی 90 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا! یہاں سردیوں میں ٹھنڈ کے باعث ہر نوع کی حیات کی زندگی جیسے تھم سی جاتی ہے۔ اسی علاقے کی یہ جھیل قدیم ترین ہی نہیں، دنیا کی گہری ترین جھیل بھی ہے جو ایک مقام پر ایک میل سے زائد یعنی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار فٹ تک گہری ہے۔ اس کی تہ میں موجود دراڑوں کے باعث زیرِ زمین پانی بھی جھیل کا حصّہ ہے۔

ماہرین کا خیال شاید یہی وجہ ہے کہ کروڑوں سال گزرنے کے باوجود یہ جھیل سوکھنے نہیں پائی۔ دوسری وادیوں سے آتے چھوٹے بڑے تقریباً تین سو سے زائد دریا، جھیل بیکال کی آب یاری کرتے ہیں۔ اس کے دہانے سے صرف ایک دریا نکلتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے کل تازہ پانی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ صرف جھیل بیکال میں موجود ہے۔

ماہرین کے مطابق اس قدر شدید موسم کے باوجود یہاں زندگی بھی پھل پھول رہی ہے اور یہاں کئی اقسام کے ایسے جان دار پائے جاتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں موجود نہیں ہیں۔

اس کی اوسط چوڑائی تقریباً پچاس کلومیٹر تک ہے۔ تاہم بعض مقامات پر اس کا پھیلاؤ تقریباً 80 کلومیٹر تک وسیع ہے۔ بیکال دنیا کی شفاف ترین جھیل بھی کہلاتی ہے۔

جھیل کے گرد بیکال کے سلسلہ ہائے کوہ اور ٹائیگا کا علاقہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ وہی ٹائیگا ہے جہاں وہ عورت بھی رہتی رہی ہے جس کا علم جدید دنیا کو بیسویں صدی میں ہوا اور پھر مشہور ہوگیا کہ اگافیا لائیکوف دنیا کی تنہا ترین عورت ہے جو اس سرد علاقے میں رہتی ہے۔

گرمیوں میں جھیل کا زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت تقریباً 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ تاہم یہ گرمیاں محض دو سے تین ماہ پر ہی محیط ہوتی ہیں۔ عموماً جولائی سے ستمبر تک کے مہینوں میں جھیل ایک خوب صورت اور وسیع و عریض ساحل کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ لیکن موسم بدلتے ہی درجۂ حرارت کم ہوتا ہے اور جھیل ایک برفانی صحرا کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس کا پانی کئی فٹ تک ٹھوس برف بن جاتا ہے۔

سرد موسم میں جھیل کی فضاؤں پر بھی سرد ہواؤں کا راج ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایک جانب درجہ حرارت منفی 40 درجے سینٹی گریڈ تک گِر جاتا ہے۔ تو دوسری جانب ہوا کا دباؤ ایک ہزار ملی بارز سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں پورے علاقے میں خشک اور سرد ہواؤں کا ایک معکوس گرد باد یعنی اینٹی سائیکلون وجود میں آتا ہے جسے ہم سائبیرین ہواؤں کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

جھیل بیکال اور اردگرد کے علاقوں سے اٹھنے والی یہ سرد ہوائیں جب پھیلتی ہیں تو قریبی منگولیا کی سرحدوں کو پار کر کے چین سے ہوتی ہوئی جنوبی ایشیا کے ساحلوں تک وسیع ہو جاتی ہیں۔ ان کی شدت اور ٹھنڈک اتنی ہوتی ہے کہ زمین کے شمالی نصف کُرّے کا تقریباً پورا علاقہ سردی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

اس جھیل کو اقوامِ متحدہ نے 1996ء میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ اسے سائبیریا کی نیلی آنکھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس جھیل میں کل 22 جزیرے ہیں جن میں سے جزیرہ اولخون دنیا کی کسی بھی جھیل میں واقع دوسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔

Comments

- Advertisement -