تازہ ترین

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا مشترکہ اعلامیہ جاری

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

کرونا وائرس: بچوں کے لیے خطرات میں اضافہ

کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد بالغ افراد میں لانگ کووڈ کے بے شمار کیسز سامنے آئے تاہم اب بچوں میں بھی ایسے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہنے والے بچوں میں مسلسل تھکاوٹ اور لانگ کووڈ کی دیگر علامات کا خطرہ موجود ہوتا ہے۔

تحقیق کے دوران ماہرین نے روسی دارالحکومت ماسکو کے ایک اسپتال میں اپریل سے اگست 2020 کے دوران کووڈ کے باعث زیر علاج رہنے والے 500 سے زائد بچوں کے والدین سے انٹرویو کیے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ ایک چوتھائی کے قریب بچوں میں گھر لوٹنے کے 5 ماہ بعد بھی علامات کا تسلسل برقرار رہا تھا، ان میں سب سے عام تھکاوٹ، نیند اور سانس کے مسائل سب سے عام تھے۔

ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے متاثر بچوں میں ابتدائی بیماری کے بعد بھی لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق میں شامل 518 بچوں میں سے 24 فیصد میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 7 سے 9 گھنٹے بعد بھی علامات کا تسلسل موجود تھا۔

10 فیصد نے تھکاوٹ اور 7 فیصد نے نیند میں خلل کے مسائل کو رپورٹ کیا۔

لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں میں چھوٹے بچوں کے مقابلے میں لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ نظر آتا ہے یا الرجی کی تاریخ بھی اس خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ نتائج ابتدائی ہیں مگر ڈاکٹروں کو بچوں میں لانگ کووڈ کے امکان کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے، تھکاوٹ سب سے عام مسئلہ ہے، ہم ایک یا 2 دن کی تھکاوٹ کی بات نہیں کررہے بلکہ ایسی تھکاوٹ کی بات کررہے ہیں جو مسلسل برقرار رہتی ہے اور اس کی وجہ کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد 8 فیصد سے زیادہ بچوں کو سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا بھی ہوا جس میں وقت کے ساتھ بہتری آئی مگر 7 ماہ بعد بھی لگ بھگ 6 فیصد نے اس مسئلے کو رپورٹ کیا۔

دیگر اسپتالوں جیسے سوئیڈن اور اٹلی میں بھی حال ہی میں بچوں میں لانگ کووڈ کے کیسز رپورٹ کیے گئے جس کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس وائرس کی بچوں پر اثرات کی تحقیق کی جانی ضروری ہے۔

Comments

- Advertisement -