تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

لارڈ میکالے نے کیسے ہندوستانیوں کو ان کی تاریخ اور تہذیب سے بیگانہ کیا؟

لارڈ میکالے اس نظامِ تعلیم کے بانی ہیں جس نے برِّصغیر کی تعلیمی فضا کو یک سَر تبدیل کر دیا اور خاص طور پر ہندوستانیوں‌ کے ذہنوں کو بدل دیا۔ میکالے نے 1835 کی ایک مجلس میں برصغیر کے نظامِ تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئے بعض اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور جو تجاویز پیش کیں ان کا محمد دین جوہر نے اردو ترجمہ کیا ہے، لیکن اس ترجمے کے ساتھ ان کے معروضات اور لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ نہایت اہم ہیں۔

متحدہ ہندوستان میں اُس وقت کے کئی علما، فاضل شخصیات، مسلمان سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں‌ نے بھی انگریزی زبان، اور جدید تعلیم کے ساتھ خاص طور پر لارڈ میکالے کی تعلیمی اصلاحات کی تجاویز اور بعض‌ نکات پر اعتراض کیے تھے، لیکن اسے قبول بھی کرلیا گیا۔ اس اجلاس میں لارڈ میکالے کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ برصغیر کے تعلیمی نظام کو مقامی زبانوں کی بجائے انگریزی زبان میں پڑھایا جائے۔

محمد دین جوہر لکھتے ہیں:
"آزادی سے پہلے کی تعلیم میں بہت سی چیزیں تھیں جو غور طلب تھیں اور ایک پہلو تو ایسا تھا جس پر سنجیدگی سے غور و فکر ہماری دینی اور ملی ضرورت بھی تھی اور وہ یہ پہلو تھا کہ ہماری تعلیم دولخت ہوئی تو ہم نے دینی اور دنیاوی کی اس تقسیم کو رد و قدح کے بغیر نہ صرف قبول کرلیا بلکہ اس کے پُرجوش حامی اور عامل بھی بن گئے۔ ہماری آج کی صورتِ حال اسی کس مپرسی کا نتیجہ ہے۔”

انھوں نے مزید لکھا۔
"یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ استعماری نظام بھی تعلیم دینا چاہتا ہے اور مذہب بھی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ اپنی تعلیم دینے کا موقع کس کو حاصل ہوگا؟ اس بات کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور تاریخ کا ذکر کرتے ہی سیاسی طاقت کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ بات بہت سادہ ہے کہ ہمیں تعلیم وہی دے گا جس کے پاس سیاسی طاقت ہوگی۔ جب مذہب اجتماعی اداروں سے خارج ہوگیا تو مدرسے میں جاری مواعظ سے اس کو کوئی خطرہ تو دور کی بات اعتراض بھی نہ رہا۔ فکر اور علم مذہبی مواعظ کا حصہ اس وقت بن پاتے ہیں جب تاریخ اور انسان سے متعلق رہیں۔ اگر تعلیم صرف مضامین پڑھانے تک محدود ہو جائے تو مضامین آموزی پر استعمار کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا؟ مذہب کے خاتمے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ دینی تعلیم کو عام دھارے کی تعلیم سے الگ کر دیا جائے۔ جب دینی تعلیم کو عام زندگی کے مذہبی دھارے سے الگ کر دیا جاتا ہے تو آگے چل کر مذہب بھی دینی تعلیم کے پیچھے چلتے چلتے زندگی کے عام دھارے سے اور عام آدمی کی فعال زندگی سے باہر چلا جاتا ہے۔”

لارڈ میکالے نے بہت ہوشیاری اور سوچ سمجھ کر ہمیں ہماری زبانوں عربی اور فارسی سے بیگانہ کر دیا۔ اس سے ہم تاریخ سے غافل ہوگئے اور ہماری تہذیب ہی کھو گئی۔
اس وقت ہمارے پاس اردو رہ جاتی ہے اس کی آبیاری کرنا اپنی آبیاری کرنا ہے۔

Comments

- Advertisement -