آج عالمِ اسلام حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا یوم شہادت منارہا ہے، آپ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور امت مسلمہ کے خلیفہ راشد چہارم تھے،19 رمضان40 ہجری کو کوفہ میں ابن ملجم نامی ایک خارجی نےآپ کو زہر آلود تلوار سے دوران نماز ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔
آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔
ہجرت کی شب آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اپنے پاس موجود تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کرکے مدینے روانہ ہوگئے اور آپ تلواروں کی چھاؤں میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کی چادر اوڑھ کر سوگئے۔
مدینے میں مواخات کے موقع پر جب رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا تو کہا کہ ’’اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو اور تمھیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
ہجرت کے بعد جب جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر معرکے میں آگے آگے رہے یہاں تک کے خیبر کی سخت ترین جنگ میں انہیں لشکر اسلام کا علمدار مقرر کیا گیا۔
جنگ ِ احد میں جب گھمسان کا رن پڑا تو آپ کے ہاتھ میں پے درپے تلواریں ٹوٹیں جب آخری تلوار ٹوٹی آسمان صے حضرت جبریل ایک تلوار لے کر رسول خدا صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے جو کہ انہوں نے حضرت علی کو مرحمت فرمائی۔ اس تلوار کا نام ’’ذوالفقار‘‘ہے اور یہ کربلا تک آپ کے فرزند امام حسین کی ملکیت رہی اور اس کے بعد عوام سے اوجھل ہوگئی۔
آپ کے دستِ مبارک سے اسلام کے بدترین دشمن جن میں شیبہ، انتر ، مرحب ، حارث اور عمر ابن عبدوود جیسے افراد شامل ہیں جہنم واصل ہوئے۔
پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا عقد اپنی چہیتی بیٹی جنابِ فاطمہ علیہ السلام سے کیا جن سے آپؑ کوجنابِ حسنین کریمین اور جنابِ زینب جیسی عزت ماب ہستیوں کے والد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کے مشہور القاب ابوالحسن، ابوتراب اسد اللہ الغالب، حیدر ِکرار، صاحب الذوالفقار، خیبر شکن اور امیر المومنین ہیں۔
جب عیسائیوں سے مباہلے کا مرحلہ آیا تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنا نفس قرار دیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ساری زندگی دین کی سربلندی کے لئے گزری آپ کاتبِ وحی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور پیغمبرِ اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی تمام ترخط وکتابت اور معاہدوں کے مسودے تحریر کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری تھی۔
پیغمر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرغدیرِ خم کے میدان میں آُپ کو عوام پر اپنا نائب مقرر کیا تھا۔
آپ قران اور فقہ کے بلند پایہ عالم تھے جس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن عباس، محمد بن ابی بکر، اور عبداللہ ابن عمر جیسے بلند پایہ عالمِ حدیث آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ خطبات پر مشتمل کتاب کا نام نہج البلاغہ ہے جسے عالم اسلام میں اہم حیثیت حاصل ہے خصوصاً مالک اشتر کو جب مصر کا گورنر نامزد کیا تو ایک طویل ہدایت نامہ تحریر کیا جسے کسی بھی جدید فلاحی مملکت کے آٗینکی بنیاد تصور کیا جاسکتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ 35 ہجری کے شورش زدہ دورمیں اکابرین اسلام کے اصرار پر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ، یہ سارا دور تنازعات سے بھرپور رہا جس میں خوارج نامی فتنہ انتہائی اہم تھا جس کی سرکوبی کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل کرنا پڑا۔
جنگ صفین کے بعد 19رمضان 40 ہجری کو شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر زہر بجھی تلوار سے وارکیا جو کہ فوری جسم میں سرایت کردیا۔
زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔
آپ عالم بالعمل تھے اور آپ کا سب مشہور قول ہے کہ ’’ میں جنت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ وہ (اللہ) عبادت کے لائق ہے‘‘۔