تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ایون فیلڈ ریفرنس : مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر باعزت بری

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدرکو باعزت بری کردیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔

اسپیشل پراسیکیوٹرنیب عثمان غنی چیمہ طبیعت ناسازی کےباعث پیش نہ ہوسکے ، مریم نوازاورکیپٹن (ر ) صفدر لیگی رہنماؤں کےساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

نیب کیجانب سے سردارمظفر، مریم نواز کیجانب سے امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹرسردارمظفر نے کہا گزشتہ سماعت پرعثمان چیمہ نے دلائل نہیں دیے آج بیماری کی وجہ سے نہیں آئے ، عثمان غنی چیمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

امجد پرویز نے سردارمظفر کو اشارہ کرتے ہوئے کہا سردارصاحب سے زیادہ کوئی اچھا نہیں کر سکتا۔

عدالت نے نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر سردارمظفر کو دلائل دینے کی ہدایت کی،جس کے بعد ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کیس کا ریکارڈ پڑھنا شروع کر دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا سردار صاحب کیا یہ سارا آپ پڑھیں گے ؟جو جو چیزیں کیس سے لنک ہے وہ پڑھیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ سوال پھر وہیں سے شروع ہوتاہے چارج کیسے ثابت ہورہاہے؟ آمدن سے زائد اثاثوں میں نواز شریف ، مریم نواز کا لنک بتا دیں، ابھی تک ان کا کہیں بھی لنک ثابت نہیں ہو رہا پھر بھی آپ پڑھیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا تفتیشی افسر نے جے آئی ٹی رپورٹ لکھ دی، خود کیا تفتیش کی؟

جسٹس عامر فاروق نے بھی سوال کیا یہ دستاویزات پراسیکیوشن کا کیس کیسے ثابت کرتےہیں؟ ان دستاویزات سے الزام کیسے ثابت ہوتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کیا تفتیشی افسر نے دستاویزپر کوئی تفتیش بھی کی؟ جسٹس عامر فاروق
ایسی چیز سامنے نہیں آئی جو نواز شریف یا مریم نواز کا پراپرٹیز سے تعلق جوڑے، کیا پراپرٹیز کی مالیت کا تعین کرنے والا کوئی دستاویز سامنے آیا؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے واجد ضیا کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا ، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا واجد ضیا کا کردار تو جے آئی ٹی میں تفتیشی کا تھا، واجد ضیا نے تو بیان میں ساری اپنی رائے دی ہے، میں نے کبھی کسی تفتیشی کا ایسا بیان نہیں دیکھا۔

سردار مظفر نے عدالت کو بتایا کہ واجد ضیا عدالت میں بطور تفتیشی نہیں بطور نیب گواہ آئے تھے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تفتیشی افسر کی رائے کو شواہد کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، جے آئی ٹی نے حقائق بیان نہیں کیے، صرف اکٹھا معلومات دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر نے استفسار کیا یہ بتائیں کہ ان سب باتوں سےالزام کیسے ثابت ہو رہا ہے؟ سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ واجد ضیا نے یہ ڈاکومنٹس خود دیکھے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا، ڈاکومنٹس سے دکھاؤں گا یہ پراپرٹیز 1999 میں خریدی گئیں۔

جسٹس عامر فاروق نے مزید استفسار کیا ان پراپرٹیز کی خریداری کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی؟ آپ اس سے متعلق ڈاکومنٹ دکھائیں ، زبانی بات نہ کریں، کل کو یہ ساری چیزیں ججمنٹ میں آنی ہیں ، آف شور کمپنیوں نے اپارٹمنٹ کتنی قیمت میں خریدا؟ اپیل میں کام آسان ہوتا ہے جو چیزیں ریکارڈ پر ہیں انہی کو دیکھنا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ نواز شریف کا اس کیس کے حوالے سے مؤقف کیا ہے؟ سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ نواز شریف کا مؤقف تھا کہ ان کا اس پراپرٹی سے تعلق نہیں۔

عدالت نے وکیل مریم نواز سے استفسار کیا کیا 342 کے بیان میں مانا گیا کہ پراپرٹی کتنی میں خریدی گئی؟ وکیل مریم نواز نے بتایا کہ 342 کے بیان میں کہیں پر کوئی ذکر نہیں، جس پر عدالت نے مزید استفسار کیا کیا یہ وہ واحد اور بہترین دستاویز ہے جو کیس پیش کی گئی؟

عدالت نے مزید کہا کہ آخری سماعت پر عثمان جی چیمہ نے کہا کہ مریم نواز کا کردار 2006 سے شروع ہوتا ہے اور ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کا کردار 1993 سے شروع ہوتا ہے، جس پر ڈپٹی پراسیکوٹر نیب کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو صرف تین لائنوں میں کیس سمجھا دیتا ہوں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کہتا ہے ان کا تعلق نہیں تو پھر آپ نے ریکارڈ سے ثابت کرنا ہے، آپ متضاد بات کررہے ہیں گزشتہ سماعت پر کہا تھا پراپرٹیز خریدنےمیں مریم کا کردار نہیں ، اگر سپریم کورٹ میں سی ایم اے فائل نا ہوتی تو آپ کا کیس تو کچھ نہیں تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے جو چار جملے آپ نے کہیں ہیں اسی کو شواہد کے ساتھ ثابت کرے، سی ایم اے اگر فائل نہ ہوتی تو آپکا کوئی کیس ہی نہیں تھا۔

وکیل مریم نواز نے کہا کہ رحمان ملک رپورٹ کے اوپر انہوں نے انحصار کیا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ آپ غلط بات کررہے ہیں کہ پراپرٹی کی قیمت اس سے نہیں جوڑا، وہاں ہر چیز ڈاکومنٹیڈ ہوتی ہے، ریکارڈ لانا مشکل نہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ ہم نے پراپرٹی کی ملکیت ثابت کر دی ، مالیت غیر اہم ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آپ غلط بات کر رہے ہیں، زائداثاثوں کے ریفرنس میں قیمت کا تعین ضروری ہے، نیب کا پورا کیس شریف خاندان کے اپنے جوابات پر بنایا گیا، شریف خاندان سپریم کورٹ میں جواب دائر نہ کرتا تو کیس نہیں بن سکتا تھا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب کو نیب پراسیکوٹر نے پڑھ کرسنایا، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے گزشتہ سماعت پر دوسرے پراسیکیوٹر نے ایک الگ موقف لیا،اس پراسیکیوٹر نے کہا مریم نواز کا جائیداد کی خرید میں تعلق نہیں اور آپ آج کہہ رہے ہیں مریم نواز 1993سے بینیفشل مالک تھیں۔

جس پر سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ ہمارا موقف ہے نواز شریف نے یہ جائیدادیں مریم کے ذریعے چھپائیں، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں اس کو شواہد سے ثابت کریں،اب اِدھر اُدھر نہ جائیں جو خود کہا اس کو ثابت کریں۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ یہ بیرون ملک بنائی گئی جائیداد کا کیس ہے جس کی دستاویزبھی وہی بنیں، جو ریکارڈ رسائی میں تھا وہی دستاویزات لائے اور کیا لاتے؟

جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آپ اس کیس کو زیادہ بہتر طریقے سے بنا سکتے تھے، واجد ضیا کو پتہ چلا تھا 500ملین مالیت ہے تو دستاویزلائی جا سکتی تھیں۔

ایون فیلڈریفرنس اپیلوں پر سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ جوبات سپریم کورٹ میں بیان کی ہے یہ واجد ضیا اپنے بیان میں ذکر کرچکے ،سپریم کورٹ میں جمع سی ایم اے نواز شریف کا بیان نہیں، جو بھی دستاویز سپریم کورٹ میں جمع ہوئیں ان کی تحقیقات نہیں ہوئیں، نیب نے تحقیقات کرنی تھیں جو نہیں کیں۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی آپ دستاویز سے بتائیں جو انہوں نے سی ایم اے میں کہا وہ غلط ہے یا ٹھیک اور استفسار کیا آپ نے کہاں ثابت کیا یہ ساری پراپرٹیز نواز شریف کی ہیں ، اگر نواز شریف کا کردار ثابت ہو گا تو مریم کے کردار کو دیکھیں گے، سردار صاحب کیس تقریباً مکمل ہو گیا اب ڈاکومنٹ دکھا دیں جو کہیں چھپا ہوا ہے۔

وکیل مریم نواز نے کہا کہ ان کے پاس ڈاکومنٹ سرٹیفائیڈ کی فوٹو کاپی ہے، جس پر جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ گواہ اور ملزم بیانات ریکارڈکراتے ہیں، تفتیشی نے شواہد اکٹھے کرنے تھے، دادا پوتے کیلئے سیٹلمنٹ کر رہا ہے تو اس میں نواز شریف تو کہیں نہیں آیا، فلیٹس کمپنی کی اونر شپ ہونے پر تو کوئی اختلاف نہیں، وکیل مریم نواز نے کہا جی بالکل کوئی اختلاف نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ شریف فیملی کا مؤقف ہے کہ دادا نے پوتے کو پراپرٹیز دیں، واجد ضیانے انہی کی متفرق درخواست کورپورٹ کا حصہ بنا دیا، تفتیشی نے ان کے اس مؤقف کو غلط ثابت کرناتھا۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا اصل ملکیت نواز شریف کی ہے،تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کر کے حقائق سامنے لانے تھے، وہ دستاویزدکھا دیں کہ جن سےپراپرٹی ٹریل "یہ ہیں وہ ذرائع” غلط ثابت ہو۔

جسٹس عامرفاروق نے سوال کیا نواز شریف نے پوتے کیلئے پراپرٹیز بنائیں تو نواز شریف کا تعلق کہاں ہے؟ دادا نے کچھ پوتا پوتی کیلئے بنائے تو پھر بھی نواز شریف کہیں موجود نہیں، یہ تو کہیں ثابت نہیں ہو رہا باپ نے بیٹے نواز شریف کو پراپرٹیز دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نیب نے عدالت کو وہ ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھانا ہے وہ دکھا دیں، سنیب پراسیکیوٹر نے نیلسن اور نیسکول کمپنیز کی رجسٹریشن کی دستاویزات دکھا دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟ وکیل مریم نواز امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کی کاپی ہے تو جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پراپرٹیز کمپنیز کی ملکیت ہیں۔

عدالت نے کہا کہ کئی دستاویزپر ملزمان کے وکلا نے ٹرائل میں اعتراضات اٹھائے تھے ، دیکھنا ہے کیا ٹرائل کورٹ نےفیصلے میں اعتراضات کو وجوہات سےمسترد کیا، جس پر امجد پرویز کا کہنا تھا کہ یہ دستاویزدکھا رہے ہیں ان پر لکھاکہ کسی کے کیئر آف سے آئیں۔

عدالت نے نیب سے استفسار کیا کیا جن کے ذریعے یہ دستاویزآئیں ان کا بیان لیا؟ جس پر سردار مظفر نے کہا کہ ہمیں ضروت نہیں تھی، ملزمان نے جرح کرنی تھی تو لے آتے،آپ کہہ رہے ہیں اپارٹمنٹس کی اونرشپ کمپنیوں کے نام اور بینفشل اونرمریم ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے نواز شریف کہاں ہیں ؟ وہ کہیں نہیں ؟ اگر ان کااعتراف بھی مان لیا جائے تو ان کا کیس 2006 سے ہی بنتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ یہ مان لیتے ہیں سپریم کورٹ میں جو سی ایم اے انہوں نے ڈالی وہ غلط ہے، 2ڈاکومنٹس پر آپ کا کیس ہے ان میں نواز شریف سے متعلق ثبوت بتا دیں، مریم پر پرائمری چارج نہیں ،پرنسپل کیس ثابت نہ کر سکے تو یہ بھی کچھ نہیں ہو گا۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیئے نیب اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، ہم صرف پبلک نالج یاکسی کی سنی سنائی بات پرفیصلہ نہیں سنا سکتے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں نیب نے کیس ثابت کرنا ہے، الزام لگا دینا ایک الگ چیز ہوتی ہے لیکن آپ ان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور صفدر کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ایون فیلڈریفرنس میں سزاؤں کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اسلام آبادہائیکورٹ نے مریم نواز ، صفدرکی بریت کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے دونوں کو باعزت بری کردیا۔

خیال رہے احتساب عدالت نے مریم نواز کو 8 سال اور کیپٹن (ر)صفدر کو 1سال کی سزا سنائی تھی ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

Comments

- Advertisement -