منگل, دسمبر 10, 2024
اشتہار

مشعال خان قتل کیس: ایک ملزم کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا

اشتہار

حیرت انگیز

ہری پور: مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بہیمانہ طور پر قتل کیے جانے والے مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ واقعے میں ملوث ایک ملزم کو سزائے موت اور 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ ایبٹ آباد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج فضل سبحان نے سینٹرل جیل ہری پور میں سنایا۔ عدالت نے 30 جنوری کو مشعال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جبکہ عدالت کے سامنے تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

عدالت نے ایک ملزم عمران کو سزائے موت جبکہ 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔ مشعال خان قتل کیس میں 57 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جن میں سے 26 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

- Advertisement -

سزائے موت کے ملزم عمران پر تشدد کے بعد مشعال پر فائرنگ کا الزام تھا۔ عمران مشعال خان کا ہم جماعت طالب علم تھا۔

سیکیورٹی خدشات پر سینٹرل جیل میں آج تمام قیدیوں کی ملاقات بند کردی گئی جبکہ سینٹرل جیل سیکیورٹی کے لیے پولیس کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں۔

جیل کی سیکورٹی کے لیے 250 پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔ جیل کے راستوں پر ناکہ بندی کر کے مکمل تلاشی کا عمل جاری ہے۔

مشعال خان قتل کیس کے فیصلے کے دن مشعال خان کے گھر پر بھی سخت سیکیورٹی  انتظامات کیے گئے تھے۔ مشعال کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ عدالت نہیں جاسکے۔

خیال رہے کہ عدالت نے اس کیس میں گواہان، مشعال کے والد اقبال خان، ملزمان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ کیس میں مشعال کے والد اور استغاثہ کے وکیل سردار عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے چیف پراسیکیوٹر کے طور پر بھی عدالتی معاونت کی۔

مزید پڑھیں:  مشعال قتل کیس میں 57 ملزمان پر فرد جرم عائد

پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر یہ کیس ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل ہوا تھا۔

مشعال خان قتل کیس میں 50 گواہان نے بیانات قلم بند کروائے ہیں۔ کل 61 ملزمان میں سے 58 ملزمان گرفتار اور 3 مفرور ہیں جب کہ تمام ملزمان کی درخواست ضمانت کی اپیلیں بھی مسترد ہوچکی ہیں۔

واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشعال خان کو گزشتہ سال 13 اپریل کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

مشعال خان قتل پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جو مشعال کے ساتھ ہوا، کسی اسلامی ملک میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

مشعال خان کے والد اقبال خان نے کیس کو ایبٹ آباد منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مشعال قتل کیس حساس نوعیت کا ہے اور اب بھی دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے کیس کا ٹرائل سینٹرل جیل میں کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں اسلام آباد منتقل کیا جائے جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں