سجاد مرزا
پاکستان کا شہرپشاور قدیم تہزیب و تمدن اورتارخیی حیثیت رکھتا ہے اوردنیا بھرمیں مختلف وجوہات اور خصوصیات کی وجہ سے پہچانا جاتاہے۔ سکندراعظم ہو، مغلیہ دورحکومت ہو، انسیویں صدی کی سردجنگ،یا پھردہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، پشاور میں موجود مسلمانوں کی قدیم مسجد مہابت خان جو کہ ماضی کی شان و شوکت کا عالیشان نشان ہے، آج حکومت کی عدم توجہ کے باعث ضعیف اورخستہ حالی کا شکار ہے۔
مسجد مہابت خان پشاور کےقعلہ بالا حصار سے پچاس فٹ کے فاصلے پراندرون شہر میں واقع ہے اور اس میں داخل ہونے کے لیے دو دروازےہیں، ایک آساماہی روڈ پرجبکہ دوسرا اندرون شہرمیں کھلتا ہے۔
مسجد مہابت خان پشاور کی قدیم مسجد ہے اوراسی وجہ سے ماہ رمضان المباک میں مہابت خان میں نماز تراویع کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ شہریوں کے کہنا ہے کہ اس مسجد سے وہ کئی نسلوں سے وابستہ ہےاوریہاں پرعبادات کرکے انہیں روحانی سکون ملتا ہے۔
مسجد مہابت خان1660صدی عیسوی مغلیہ دورمیں تعمیرکی گئی۔ مسجد کا نام مغل شاہنشاہ اورنگزیب کے دور میں لاہور کے گورنر نواب دادن خان کے پوتے اورمغل گورنرپشاور نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیاہے۔
دنیا بھر کی خوبصورت و تاریخی مساجد*
سن 1834 عیسوی پشاورپرسھکوں کے دورِ حکومت میں مسجد مہابت خان پرسکھوں کا قبضہ تھا جنہوں نے مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طورپربھی استعمال کیا، جبکہ برطانیہ کے دور حکمومت میں مسجد کو دوبارہ مسلمانوں کی عبادات کے لیے بحال کیاگیا۔
مسجد کی دیواروں پر کیے جانے والےنقش و نگار مغلیہ دور کےفن تمعیر کی عکاسی کرتی ہیں جو کہ سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرتے ہیں لیکن مسجد کی موجودہ حالت اس کی دیوارں کی خستہ حالی سے صاف ظاھر ہوتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں مسجد کی تزئین وآرئش کے لیے فنڈزمختص توکیا جاتا ہے لیکن مسجد کی درودیور حکومت کی لاپرواہی اور عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تین سو سال قبل مغلیہ دورمیں تعمیرکی جانے والی مسلمانوں کی اس عبادت گاہ مسجد مہابت خان کوحکومت نے سن 1982عیسوی میں قومی ورثہ قرار دیااور محکمہ اوقاف کے حوالے کیا، جس نے اس کی تزین وآرئیش کے مشکل کام کا بیڑااٹھایا۔
26اکتوبر 2015 کو دوپہر 2 بجکر39 منٹ پرکوہ ہندو کش کی جانب سے آنے والا زلزلہ ،جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.5ریکاڈ کی گئی تھی کہ باعث مسجد مہابت خان کے ایک مینار کو شدید نقصان پہنچا۔
ملک کے قیمتی اثاثوں کوان کی اصل حالت میں محفوظ رکھنا اورسیاحوں کے لیے دلکش اورپرکشش بنانا محمکہ آثار قدیمہ کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت نے اس قدیمی مسجد مہابت خان کو محکمہ اوقاف کے حوالے کیا ہے، محکمہ اوقاف کو مسجد مہابت خان کی خستہ حالی سے متعلق کئی باررابطہ کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کے محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کی بحالی کے لیےاپنی ہرمکمن خدمات پیش کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی، مکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹرڈاکڑعبدالصمد نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ۔
یہ مسجد صوبے میں سب سے زیادہ اہم سائٹس میں سے ایک ہے
اور بہت سے سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز ہے
مسجد کے خطیب مولانا طیب قریشی نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبے کے تمام حصوں سے لوگ اس تاریخی مسجد کا دورہ کرتے ہیں اس کو خستہ حالت میں دیکھ کردل گرفتہ اورمایوس ہوکرلوٹ جاتے ہیں‘‘۔
انہوں مزید کہا کہ ’’آخر یہ ایوانوں اور سرکاری عہدوں پر فائزلوگ اپنے دفاتر کی تزین وآرائش کے لیے لاکھوں روپےتوخرچ کرتے ہیں لیکن خانہ خدا اور قومی اثاثے کی حالت بہتر بنانے سے نجانے کیوں کتراتے ہیں۔ اسرائیل میں موجودمسجد اقصیٰ پر تو ہم اپنی جان دینے کو تیار ہے لیکن جو ہمارے دائرۂ اختیار میں ہے اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں‘‘۔
قومی اثاثے اورمغلیہ دور کی اس شاندار اور تاریخی فن تعمیر کی خستہ حالی کو دیکھ کرمرزا غالب کا شعریادآگیا
دل خوش ہوا ہےمسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے