تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

’’خانقاہ‘‘ کی کہانی جس پر ایم۔ جی۔ لیوس کو سخت مطعون کیا گیا

فرانس کے ادیب الیگزینڈر ڈوما اپنے عہد کے مقبول ترین ناول نگار تھے جن کے مشہور ناول دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو کا اردو ترجمہ شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔

اس کے علاوہ بھی کئی زبانو‌ں میں غیرملکی ادیبوں کے ناول اور مختصر کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا جو ہمارے ادبی ذوق و شوق کی تسکین کا باعث ہیں۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں بر صغیر میں انگریزی ناولوں کے اُردو تراجم بہت مقبول ہوئے۔ اردو زبان میں انگریزی زبان کے ناولوں کے تراجم کا جو سلسلہ منشی تیرتھ رام سے شروع ہوا، اسے یہاں قارئین نے قبولیت کی سند بخشی اور تراجم کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف ادبی ذوق کی تسکین کی بلکہ فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ اردو ادب پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

قارئین، اردو زبان و ادب کی ممتاز شخصیات اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے معروف ترجمہ نگاروں نے مذہب، سائنس، فلسفہ، تاریخ، سوانح اور عالمی ادب سے اہم اور دل چسپ کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم تک پہنچایا ہے۔ ان میں انگریزی، فرانسیسی، ہندی، بنگلہ، روسی، اور دیگر کئی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں میں‌ شایع ہونے والی کتابوں کے تراجم شامل ہیں۔

سید سجاد حیدر یلدرم اور متعدد ادیبوں نے تراجم کے ذریعے اپنے متنوع تجربات سے اردو زبان و ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مزیّن کیا۔

اسی طرح مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے نام ور ناول نگار ایم۔ جی۔ لیوس (Mathew Gregory Lewis) کے ناول کا ’’خانقاہ‘‘ کے نام سے اردو ترجمہ پیش کیا تو اِسے قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس مصنّف کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں پُراسرار اور ہیبت ناک ناول اپنے منفرد اسلوب میں لکھ کر اپنی تخلیقی اور اختراعی صلاحیت کا لوہا منوایا۔

لفظی مرقع نگاری سے ماحول کو ہیبت ناک اور واقعات کو سنسنی خیز بنانے میں اس مصنّف کو کمال حاصل تھا جس سے اردو کا قاری حقیقی معنوں میں ناول کے ترجمے کے بعد ہی واقف ہوا۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں اپنے سماج کے ان تاریک اور پوشیدہ پہلوؤں پر بات کی گئی تھی جن سے اس دور کے ادیبوں کی اکثریت گریزاں رہی۔ دراصل خانقاہ میں مصنّف نے تارکُ الدنیا راہبوں، پادریوں اور گوشہ نشین مر د و خواتین کی جعل سازی، دہری شخصیت، ان کے مکر و فریب، منافقت، اور جنسی جنون کا پردہ چاک کیا ہے۔

مصنّف نے بتایا کہ یہ بازی گر کھلا دھوکا دے کر سادہ لوح لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنائے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہر وہ برائی اور شیطانی عمل کررہے ہیں جس پر وہ عام لوگوں کو مطعون کرتے اور انھیں دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں۔

1796ء میں خانقاہ کی اوّلین اشاعت نے یورپ کے متعصب پادریوں کو مشتعل کردیا اور انھوں نے اس کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اپنے بارے میں تلخ حقائق کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اس ناول کے مطالعہ کرنے، اسے خریدنے کو ناجائز اور برا کہہ کر لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی، لیکن اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاحِ احوال پر توجہ نہیں‌ دی۔ یہ انگریزی زبان کے شاہ کار ناولوں میں‌ سے ایک تھا۔

ڈپٹی نظیر احمد کے بعد غلام ربّانی آگرو، شاہد احمد دہلوی، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، انتظار حسین، ظ انصاری، سیّد قاسم محمود، سبطِ حسن، احمد شاہ بخاری، سیّد عابد علی عابد اور کتنے ہی ادیب اور شاعر تھے جنھوں نے اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر اردو کو زینہ بناتے ہوئے ہمیں غیر ملکی تاریخ و ادب پڑھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔

Comments

- Advertisement -