تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ہیرے کا ہار

شارلٹ اتنی خوب صورت تھی کہ ہر کوئی کہتا اس کو تو کسی محل میں پیدا ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ ایک سبزی فروش کے گھر پیدا ہوئی جہاں اس کی قسمت پر غربت کی مہر لگ چکی تھی۔

بڑھتی جوانی نے شارلٹ کو اپنی خوب صورتی اور غربت کا شدید احساس دلایا۔

وہ کتنی کتنی دیر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے حسن کو سراہتی۔ پھر اپنی بدقسمتی پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتیں۔ وہ تصور میں اس شہزادے کا انتظار کرتی جس کے بارے میں اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا۔ لیکن یہ سب خواب دھرے رہ گئے جب اس کی شادی محکمہ تعلیم کے ایک کلرک سے ہو گئی۔

الگزینڈر چاہتا تھا کہ شارلٹ کو ہر آسائش ملے۔ اس نے ایک لڑکی ملازم رکھ لی تھی جو ہر روز آ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی، اور باہر کے کام کاج کرتی۔

شارلٹ اب پچیس سال کی ہو چکی تھی۔ اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی غربت میں ضائع ہورہی ہے۔ وہ اونچی سوسائٹی کا حصہ بننا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی۔

شارلٹ کی واحد دوست اسکول کی ایک سہیلی جین تھی جس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی اور جو مادام جیرارڈ کی حیثیت سے سوشل حلقوں میں بہت مقبول تھی۔

ایک دن الگزینڈر بہت خوش خوش دفتر سے لوٹا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے شارلٹ کو تھما دیا۔ شارلٹ نے اکتاہٹ سے اسے ڈریسر پر رکھ دیا۔

’’کم سے کم اسے دیکھ تو لو۔ یہ وزیر تعلیم کی طرف سے ایک ڈانس پارٹی کا دعوت نامہ ہے۔ کلرکوں میں بس مجھے ہی ملا۔ بڑی مشکل سے۔‘‘

شارلٹ نے اداسی سے کہا۔ ’’میرے پاس پہننے کے لیے کوئی بھی مناسب کپڑے نہیں ہیں۔ کیسے جا سکتی ہوں۔‘‘

’’نیا ڈریس کتنے میں آ جائے گا؟‘‘ الگزینڈر نے پوچھا۔

’’چار سو فرینک سے کم میں تو نہیں آ سکتا۔‘‘

وہ شانزے لیزے کی ایک دکان پر گئے جہاں شارلٹ نے ایک بہت خوب صورت ڈریس منتخب کیا۔ دونوں خوش خوش گھر لوٹے۔ شارلٹ نے دوبارہ ڈریس پہنا۔ دونوں ڈریسر کے آئینے کے سامنے کھڑے تھے۔ الگزینڈر نے دیکھا کہ شارلٹ اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اداس نظر آ رہی ہے۔

الگزینڈر نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’ابھی تو بہت خوش تھیں۔ اچانک کیا ہو گیا؟‘‘

’’وہاں اونچے خاندانوں کی بیگمات ہوں گی جو ہیرے جواہرات سے لدی ہوں گی اور میرے پاس ایک بھی زیور نہیں جو میں اس ڈریس کے ساتھ پہن سکوں، میری کتنی تضحیک ہو گی؟‘‘

’’تم بالوں میں پھول لگا کر جا سکتی ہو۔ بہت اچھے لگیں گے۔‘‘الگزینڈر نے مشورہ دیا۔

’’نہیں الگزینڈر۔ تم یہ دعوت نامہ اپنے دفتر کے کسی اور کلرک کو دے دو۔‘‘

’’اب تو چار سو فرینک کا ڈریس بھی خرید لیا۔ اب تو جانا ہی ہو گا۔ کیا ہو سکتا ہے؟ اوہ، ا یسا کرو وہ جو تمہاری سہیلی ہے نا، جین، تم اس سے کوئی زیور ادھار مانگ لو۔‘‘

شارلٹ کو یہ خیال پسند آیا۔ ابھی پارٹی میں دو ہفتے باقی تھے۔ اگلے دن شارلٹ اپنی سہیلی کے پاس گئی۔ جین نے زیورات کے کئی ڈبّے شارلٹ کے سامنے رکھ دیے۔ شارلٹ نے انہیں پہن کر دیکھا مگر کوئی پسند نہیں آیا۔

’’ یہ سب بہت خوب صورت ہیں مگربات بن نہیں رہی۔ تمہارے پاس اور کچھ ہے؟‘‘
جین نے دراز سے ایک اور ڈبہ نکالا۔ سنہرے ڈبے کے اندر سیاہ مخمل کی گدی پر جگمگاتے ہیروں کی ایک بہت خوب صورت مالا رکھی تھی۔

’’میں پارٹی کے لیے یہ ہار ادھار لے لوں۔ صرف ایک رات کے لیے؟‘‘

’’کیوں نہیں، ضرور لو۔ اپنی پیاری سہیلی کے لیے میں اتنا بھی نہیں کر سکتی؟‘‘
شارلٹ نے جین کو گلے لگا کر کہا کہ وہ یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔

پارٹی کی رات شارلٹ انتہائی خوب صورت لگ رہی تھی۔ اعلیٰ افسران کی بیگمات اسے حسد اور ان کے شوہر اسے ہوس اور حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ وزیر تعلیم تک اس کے ساتھ رقص میں شریک ہوا۔ ساری رات موسیقی، رقص اور مشروبات کے دور چلے۔ صبح چار بجے کے قریب پارٹی اختتام کو پہنچی۔

وہ بہت دیر تک کپکپاتی سردی میں کرائے کی گاڑی ڈھونڈتے رہے۔ مشکل سے ایک پھٹیچر سی گھوڑا گاڑی ملی اور وہ صبح چھ بجے گھر پہنچے۔

الگزینڈر کا تھکن سے برا حال تھا۔ وہ صوفے پر ہی سو گیا۔ لیکن شارلٹ پارٹی کے نشے میں ڈریسر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی خوب صورتی کو سراہنے میں مصروف ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہیروں کی مالا نے اس کے حُسن کو کیسے چار چاند لگا دیے تھے۔

اچانک ایک جگر چیر دینے والی ہول ناک چیخ نے الگزینڈر کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ وہ بھاگا ہوا کمرے میں آیا جہاں شارلٹ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑا ہوا تھا۔ اس کی رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔

’’کیا ہواشارلٹ۔ تم نے اپنا گلا کیوں دبوچا۔‘‘ ابھی اس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس پر صورتِ حال آشکار ہو گئی۔ شارلٹ کے گلے سے ہار غائب تھا۔

’’اچھی طرح دیکھو، کیا پتہ کوٹ کے پھٹے ہوئے استر میں گر گیا ہو؟‘‘

’’دیکھا ہے میں نے، ہر جگہ دیکھا۔‘‘

’’تم نے کرائے کی گاڑی کا نمبر دیکھا تھا؟

’’نہیں‘‘

’’اب کیا کریں؟ ‘‘

الگزینڈر دوبارہ کپڑے بدل کر پیدل ڈانس ہال کی طرف چل دیا۔ وہ ہرقدم پر دیکھ رہا تھا کہ شاید ہار وہیں پڑا مل جائے۔ وہ کرائے کی گاڑیوں کے دفتر میں گیا۔ پولیس کو رپورٹ لکھائی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ مگر سب لا حاصل۔

جب شام گئے ناکام گھر لوٹا تو لگتا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسی تلاش میں تین دن گزر گئے۔

شارلٹ نے جین کو پیغام بھجوایا کہ ہار کا کندہ ٹوٹ گیا تھا، اس کو جوہری کے پاس مرمت کے لیے چھوڑا ہے، ہفتے دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔

خالی ڈبّے پر جوہری کا نام لکھا تھا۔ دونوں جوہری کی دکان پر پہنچے مگر اس کے ریکارڈ میں ایسے ہار کی فروخت کا اندراج نہیں تھا۔ انھیں ایک اور دکان پر ہو بہو ویسا ہی ہیروں کا ایک ہار نظر آیا۔ ہار کی قیمت بتیس ہزار فرینک تھی۔

الگزینڈر نے تنخواہ سے اٹھارہ ہزار فرینک پنشن فنڈ کے لیے بچائے تھے۔ باقی چودہ ہزار کے لیے اس نے گھر کی کئی چیزیں بیچیں۔ دوستوں، رشتے داروں اور کام پر ساتھیوں سے ادھار مانگا۔ قرضوں کے کاروباری بوڑھے سود خوروں کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کر کے اپنی پوری زندگی ان کے ہاتھ گروی رکھوا دی۔ رقم جمع کی اور جوہری سے ہار خرید لیا۔

شارلٹ ہار لے کر مادام جیرارڈ کے گھر پہنچی۔ جین نے ہار کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ڈبّہ کھول کر تک نہیں دیکھا۔

الگزینڈر کو اب قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی۔ سب سے پہلے تو ملازمہ کو فارغ کیا۔ پھر اس نے دفتر کے کام کے ساتھ دکانوں پر بک کیپنگ شروع کر دی۔ شارلٹ کہاں تو نچلے متوسط طبقے کو منہ نہیں لگاتی تھی اور کہاں اب یہ نوبت آ گئی تھی کہ اسے خود گھریلو ملازمت کرنا پڑی۔ وہ گھر کے سارے کام خود کرتی۔ سودا سلف کے لیے دکان داروں سے پیسے پیسے پر لڑتی۔ اس کے چہرے پر غربت کے زیاں کار آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ اس کے خد و خال بگڑ گئے تھے۔ چہرے پر حسن اور معصومیت کی بجائے ایک کرختگی برسنے لگی تھی اور گفتگو میں ایک بازاری پن آ گیا تھا۔

اس واقعے کو اب دس سال گزر چکے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ ہفتے بھر کی مشقت کے بعد شارلٹ گھر سے تازہ ہوا کھانے کے لیے نکلی اور شانزے لیزے کے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی کہ اسے ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر آیا۔ ایک متموّل خاتون پیاری سی بچّی کے ساتھ پارک کی سمت جا رہی تھی۔ شارلٹ کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو مادام جیرارڈ تھیں جو ابھی تک ویسی ہی خوب صورت تھی جیسی دس سال پہلے۔

’’جین‘‘ شارلٹ نے مادام جیرارڈ کو آواز دی۔ جین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے حیرت اور خفگی نمایاں تھی کہ ایک نچلے طبقے کی عورت اسے نام لے کر مخاطب کرنے کی جرات کیسے کر رہی ہے۔

’’مادام، میرا خیال ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔’’‘‘ جین نے بڑی شائستگی سے کہا۔ ’’میں آپ کو پہچانی نہیں۔‘‘

’’میں شارلٹ ہوں جین۔ تمھاری پرانی سہیلی۔‘‘

’’اوہ شارلٹ، تم کس قدر بدل گئی ہو۔ اگر تم نہ بتاتیں میں تو بالکل نہ پہچان پاتی۔ کتنی مدت ہو گئی ہے ہمیں ملے ہوئے؟ کیا حال ہے تمہارا؟ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ الگزینڈر کیسا ہے؟‘‘ جین نے بڑی گرم جوشی سے پوچھا۔

’’ہاں بہت مدّت ہو گئی۔ ہم اس دوران کافی سخت حالات سے گزرے۔ تمہیں گمان تک نہیں ہو گا کہ یہ سختیاں ہم پر تمہاری وجہ سے بیتیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب حالات ٹھیک ہیں۔‘‘

’’میری وجہ سے؟‘‘ جین نے انتہائی حیرت سے کہا۔ ’’میں نے کیا کِیا شارلٹ؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی؟‘‘

’’تمہیں یاد ہے میں نے تم سے ایک ہار ادھار مانگا تھا؟‘‘

’’ہاں، بڑی اچھی طرح سے۔‘‘

’’وہ ہار مجھ سے گم ہو گیا تھا۔‘‘

’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے تو وہ ہار مجھے لوٹا دیا تھا۔‘‘

’’جو ہار میں تمھارے پاس واپس لائی تھی یہ وہ نہیں تھا جو تم نے مجھے دیا تھا۔ تمہارا ہار گم ہو گیا تھا۔ اس جیسا بتیس ہزار فرینک کا ہار خریدنے کے لیے ہمیں قرض لینا پڑا اور پچھلے دس سال سے ہم وہی قرض اتاررہے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اسی سال وہ سارا قرض چکا دیا ہے۔ اب حالات ٹھیک ہیں۔ اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر شارلٹ مسکرائی اور سر اٹھا کر بڑے فخر اور معصومیت سے مادام جیرارڈ کو دیکھا اور دوبارہ کہا۔ ’’شکر ہے اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

جین کو جیسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اس نے بڑھ کر شارلٹ کو گلے لگایا اور کہا۔

’’میری پیاری معصوم سہیلی۔ تمہیں کس کس دکھ سے گزرنا پڑا۔ صرف میری وجہ سے۔ مگر میرا ہار تو نقلی تھا۔ اس کی قیمت تو صرف تین سو فرینک تھی۔‘‘

(فرانسیسی ادیب اور شارٹ اسٹوری رائٹر موپساں کی شاہ کار کہانی کا اردو ترجمہ)

Comments

- Advertisement -