تازہ ترین

اسرائیل کا ایران کے شہر اصفہان پر میزائل حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

مینا کماری: سنیما کی ٹریجڈی کوئین جس کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں‌ کی نذر ہوگئی

مینا کماری ’ٹریجڈی کوئین‘ کے نام سے فلمی دنیا اور اپنے مداحوں میں مشہور تھیں۔ اس کی وجہ وہ فلمی کردار تھے جس میں مینا کماری عام ہندوستانی عورت کے دکھوں اور اس کی زندگی کے مختلف المیوں کو بطور اداکارہ پیش کرتی نظر آئیں۔ لیکن کوئی نہیں‌ جانتا تھا کہ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کی زندگی بھی ایسے ہی درد انگیز واقعات اور محرومیوں کا شکار ہے۔ آج مینا کماری کی برسی ہے۔

مینا کماری کا خاندانی نام نام مہ جبین تھا۔ یکم اگست 1933 کو دنیا میں‌ آنکھ کھولنے والی مہ جین نے سنا کہ اس کے والد کو بیٹے کی آرزو تھی جو بڑھاپے میں‌ اس کا سہارا بنتا، اور یہی وجہ تھی کہ باپ نے اسے یتیم خانے میں‌ داخل کرانے کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن پھر وہ اس سے باز رہے۔ وہ وقت بھی آیا جب مینا کماری اپنے ماں باپ کے لیے بیٹے سے بڑھ کر ثابت ہوئی اور صرف چار سال کی عمر میں فلموں میں کام کرنے لگی۔

مہ جبین کو اس کا باپ ہی اسٹوڈیو لے کر جایا کرتا تھا۔ اس بچّی کو چائلڈ اسٹار کے طور پر فلموں میں کام ملنے لگا اور پھر لڑکپن کی دہلیز عبور کرنے کے بعد وہ خاص قسم کے کرداروں میں نظر آنے لگی۔ والد ماسٹر علی بخش پنجاب کے علاقے بھیرہ کے رہائشی تھے اور پارسی تھیٹر میں ہارمونیم بجاتے تھے جب کہ والدہ رقاصہ تھیں۔ اس کنبے کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ لیکن مینا کماری گھر والوں کے لیے خوش بخت ثابت ہوئی۔ اسے بالی وڈ کی بہترین اداکارہ تسلیم کیا گیا اور المیہ کردار نگاری نے مینا کماری کے مداحوں میں اضافہ کیا۔ مینا کماری بطور اداکارہ 32 سال تک ہندی سنیما پر چھائی رہیں۔

بالی وڈ میں بڑے فن کار اور فلم سازوں کے علاوہ نام ور آرٹسٹ مینا کماری کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ ستیہ جیت رائے نے مینا کماری کے لیے کہا تھا کہ “بلا شبہ وہ سب سے زیادہ ذہین اداکارہ تھی۔“ امیتابھ بچن مکالموں کی ادائیگی کے لیے مینا کماری کے معترف تھے۔ موسیقار نوشاد نے کہا تھا “اب شاید ہندی سنیما میں کوئی دوسری مینا کماری پیدا نہ ہو سکے۔“

بالی وڈ کی پہلی اداکارہ جس نے پہلا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا، مینا کماری ہی تھی۔ یہ ایوارڈ فلم بیجو باوارا پر ملا تھا اور یہی وہ فلم تھی جس نے مینا کو شہرت اور پہچان دی۔ ’دل ایک مندر‘، ’صاحب بی بی اورغلام‘، ’پاکیزہ‘، ’پرنیتا‘ اور دیگر فلموں میں مینا کماری نے ہر کردار کو بخوبی نبھایا۔ صاحب بی بی اور غلام میں مینا کماری نے غضب کی اداکاری تھی اور ذاتی زندگی کی تلخیوں نے فلموں میں ان کی اداکاری کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ہر کردار میں فلمی نقادوں کی ستائش حاصل کی۔ پاکیزہ میں مینا نے اپنے کردار کو امر کردیا۔

مینا کماری ادب کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ مرزا غالب کی شاعری کی دلدادہ تھیں۔ گھر میں کئی شعری مجموعے اور مختلف موضوعات پر کتب کے ساتھ دیوانِ غالب بھی موجود تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتی تھیں۔ مینا نے ناز اپنا تخلّص رکھا تھا۔

نام ور ہندوستانی فلم ڈائریکٹر کمال امروہوی نے مینا کماری کو اپنی دوسری بیوی بنایا تھا، لیکن زندگی میں سب کچھ پانے والی مینا کماری فلموں کی اس مصروف ہدایت کار کے ساتھ نہ بن سکی۔ فاصلے اور تلخیاں بڑھتی رہیں جس میں مینا کماری دل آزار اور تکلیف دہ باتوں کے سبب ٹوٹتی چلی گئیں۔ کمال امروہی نے مینا کماری کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت تو دی لیکن ان پر تین شرائط عائد کر دی تھیں جس میں شام ساڑھے 6 بجے تک گھر لوٹ آنا، میک اپ روم میں ان کے میک اپ مین کے علاوہ کسی دوسرے کا موجود نہ ہونا اور آنے جانے کے لیے ہمیشہ اپنی ہی گاڑی استعمال کرنا شامل تھا۔

1972ء میں وفات پانے والی مینا کماری کو رات بھر جاگنے کی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ سنہ 1963 میں ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ نیند لینے کے لیے وہ ایک جام برانڈی کا پی لیا کریں۔ یہ نسخہ اس اداکارہ کے لیے موت کا نسخہ ثابت ہوا۔ کثرتِ شراب نوشی نے انھیں جگر کے کینسر میں مبتلا کر دیا۔ آخری دنوں میں مینا کماری کو ’سینٹ الزبتھ نرسنگ ہوم‘ میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور اس کے بعد کبھی آنکھیں‌ نہیں‌ کھول سکیں۔

شاعری ہی نہیں مینا کماری نے چند مضامین بھی سپردِ قلم کیے اور خود کو باصلاحیت ثابت کیا۔ اس بارے میں وشو ناتھ طاؤس نے "فلمی صحافت” کے عنوان سے اپنی کتاب "ہندوستانی فلموں کے سو سال، کچھ جھلکیاں” میں‌ لکھا ہے:

مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

"ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہ نامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز داں ایم اے کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔”

راز داں صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔ بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز داں کے حوالے کر دیا۔ مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کے تحت چھپنے والے ممتاز ہفتہ وار فلمی رسالے ’کہکشاں‘ کے مدیر مسٹر دُکھی پریم نگری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا کہ وہ سوالات معمول کے مطابق اچھے ڈھنگ سے کرتے ہیں لیکن ایک بار انھوں نے غیر ارادی طور پر کچھ ایسی باتیں چھاپ دیں جن سے ڈائریکٹروں میں موصوفہ کی پوزیشن خراب ہو گئی مگر بعد میں اداکارہ نے اپنی صفائی میں جو بیان جاری کیا اُس سے فضا بالکل صاف ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد دُکھی پریم نگری پاکستان ہجرت کر گئے تھے اور وہاں انھوں نے کراچی کے مشہور ہفت روزہ فلمی اخبار ’نگار‘ کی ادارت کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیے اور اُسے ملک کا سب سے مقبول فلمی پرچہ بنا دیا۔

ویکلی ’کہکشاں ‘ سے وابستہ ایک اور فلمی صحافی حسن صحرائی کے بارے میں مینا نے بتایا کہ وہ ایسے انداز سے سوال کرتے ہیں جیسے راشن انسپکٹر راشن کارڈ بناتے وقت عام طور پر پوچھا کرتے ہیں ’’آپ کا نام؟ آپ کے باپ کا نام؟ آپ کا ایڈریس؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود مینا کماری کو حسن صحرائی صاحب سے اور کوئی جھجھک نہیں ہوتی تھی اور وہ اُن کا بڑا احترام کرتی تھی۔

ساٹھ برس قبل راقم دلّی کے مشہور علمی و ادبی رسالے ’رہنمائے تعلیم‘ کا فلم ایڈیٹر تھا۔ 1954ء میں اس کا خصوصی فلم ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان ہوا تو میں نے مینا کماری سے مضمون بھیجنے کی فرمائش کی۔ اُس نے ’شیطان بیچارہ‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھ کر بھیجا جو شاملِ اشاعت کیا گیا۔ اس میں ابلیس اور جبرئیل کے مابین مذاکرات کے علاوہ کچھ شعر بھی درج تھے۔ اُن دنوں مینا کماری کمال امروہوی کی شریکِ حیات تھی اور ان دونوں کے تعلقات خوش گوار تھے۔

مینا بنگلور سے شائع ہونے والے ماہانہ اردو فلمی جریدے ’عبرت‘ کی سرپرست تھی جسے جناب کامدار اُلدنی ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ دونوں نے مجھے اپنے پرچے کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا اور میں نے مسوری میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں ’عبرت‘ کی نمائندگی کی تھی۔

Comments

- Advertisement -