تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

ایک ناول نگار کی زندگی کا دہشت ناک خواب

آہ، یہ میرے تجربے کا سب سے زیادہ اندوہ ناک باب ہے۔ ترجمہ وہ دہشت ناک خواب ہے جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

میں، بظاہر، اُن نادر ادیبوں میں سے ہوں جو اپنے تراجم کو اور میری حد تک یہ فرانسیسی، انگریزی، جرمن، حتیٰ کہ اطالوی میں ہوتے ہیں…. پڑھتا ہے، اور بار بار پڑھتا ہے، اُنہیں چھان پھٹک کر دیکھتا ہے اور اُن کی تصحیح کرتا ہے۔ چناں چہ، اپنے بیش تَر ہم منصبوں کے مقابلے میں، مَیں زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ترجمہ کیا ہوتا ہے۔

مجھے اس کی وجہ سے باقاعدہ دہشت زدہ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ میں نے تقریباً چھے ماہ لگا کر ”مذاق“ کا فرانسیسی میں دوبارہ ترجمہ کیا۔ مترجم نے …. یہ سولہ برس پہلے کی بات ہے، جب میں ابھی پراگ ہی میں سکونت پذیر تھا، میری کتاب کا ترجمہ کہاں کیا تھا؟ اس نے تو اسے دوبارہ خود سے لکھ مارا تھا۔

اُسے میرا اسلوب بے حد روکھا پھیکا نظر آیا۔ اُس نے میرے مسودے میں سیکڑوں (جی ہاں، سیکڑوں!) آرائشی استعارے گھسیڑ دیے تھے؛ جہاں میں نے ایک ہی لفظ بار بار استعمال کیا تھا، وہاں اس نے مترادفات بھڑا دیے تھے۔

صاحب، وہ تو ایک ”خوب صورت اسلوب“ تخلیق کر رہا تھا! جب، دس سال بعد، یہ ”قتلِ عام“ مجھ پر منکشف ہوا، تو میں تقریباً ہر جملے کو درست، اور اس کا ازسرِ نو ترجمہ، کرنے پر مجبور ہو گیا! پہلا انگریزی ترجمہ تو اور بھی واہیات تھا۔

ایڈیٹر صاحب نے اِس کے بیش تَر تفکراتی حصّوں کو سرے سے حذف کر دیا تھا، مثلاً، وہ تمام حصّے جن کا تعلق موسیقی سے ہے۔ ابواب کی ترتیب بدل کر تو اُس نے حد ہی کر دی، یوں ناول پر، ایک اور ہی ترتیب منڈھ دی گئی۔ آج (بہرحال) ”مذاق“ قابلِ اعتماد ترجمہ ہو کر دوبارہ چھپ گیا ہے۔

مجھے تو ہمیشہ یہی گمان رہا ہے کہ میرے متن اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ ان کا بڑی آسانی کے ساتھ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ غایت درجے کے شفاف ہوتے ہیں۔ ان کی زبان قدرے کلاسیکی، واضح اور غیر عامیانہ ہوتی ہے، لیکن چوں کہ یہ سادہ ہوتے ہیں، ٹھیک اسی لیے ترجمے کے وقت مطلق معنوی صحت (absolute semantic exactitude) کا تقاضا کرتے ہیں! اب مترجمین دن بدن تحریر کو دوبارہ لکھنے والے بن گئے ہیں۔

”وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت“ کے امریکی ترجمے کے مسودے پر مجھے تین مہینے صرف کرنے پڑے، اور خدا گواہ ہے کہ یہ بڑے صبر آزما مہینے تھے! اسلوب کے بارے میں میرا اصول یہ ہے: جملے کو غایت درجے کا سلیس اور مولک ہونا چاہیے۔ اِس کے برخلاف، بے چارے میرے مترجمین جس اصول کا پاس رکھتے ہیں، وہ یہ ہے: جملے کو متمول نظر آنا چاہیے (تا کہ مترجم اپنی لسانی قابلیت، اپنی فائق ہنر مندی (virtuosity) کا مظاہرہ کر سکے اور حتیٰ المقدور پیش پا افتادہ بھی (کیوں کہ طبّاعی مترجم کے یہاں بھدّے پن کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے، لوگ اُس پر یہ پھبتی کَس سکتے ہیں: ”انگریزی میں ایسے نہیں کہتے!“، لیکن جو میں لکھتا ہوں اُسے بھی چیک میں ایسے نہیں کہتے!)۔

آپ کی نگارش کو ایسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سپاٹ نظر آنے لگتی ہے۔ اُسے پیش پا افتادہ، حتیٰ کہ بازاری، بنا دیا جاتا ہے۔ یہی حشر آپ کی فکر کا بھی کیا جاتا ہے۔ بایں ہمہ، کسی ترجمے کے اچھے ہونے کے لیے بہت لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی: بس اسے مطابق اصل ہونا، مطابقِ اصل ہونے کا خواہش مند ہونا چاہیے۔

عجیب بات ہے کہ میری نگارشات کے بہترین مترجم وہ ہیں جن کا تعلق چھوٹے چھوٹے ملکوں سے ہے: ہالینڈ، ڈنمارک، پرتگال، یہ مجھ سے باقاعدہ رجوع کرتے ہیں، اپنے سوالوں کی بھرمار سے مجھے مغلوب کر دیتے ہیں، ہر تفصیل کے بارے میں پریشان ہوتے پھرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان چھوٹے چھوٹے ملکوں کے لوگ قدرے کم کلبیت پسند واقع ہوئے ہیں اور اب بھی، ادب کے دلدادہ ہیں۔

(نام وَر فکشن نگار میلان کنڈیرا کے ایک انٹرویو سے، جس کا ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے)

Comments

- Advertisement -