اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے بلایا گیا ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا، پارلیمانی کمیٹی نے معاملہ پھر ذیلی کمیٹی کو بھجوا دیا، پیپلزپارٹی نے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔
تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوئے دوماہ کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی توسیع پر تاحال متفق نہ ہوسکیں، اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کا ساتواں اجلاس بھی بے نتیجہ ختم ہو گیا اور کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، اب آئندہ اجلاس منگل کو ہوگا۔
اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں کے ساتھ نگراں کمیٹی کی بحالی کے مطالبے پر بھی قائم ہیں، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نگراں کمیٹی کے قیام پر زور دیا ہے، اس کے علاوہ مقدمے میں مذہبی دہشت گردی کے الفاظ کے معاملے پر سیاسی رہنماؤں میں اختلافات بدستور موجود ہیں۔
فوجی عدالتوں میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے، زاہد حامد
حکومتی رکن زاہد حامد کا کہنا ہے کہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی مسودہ پرسیاسی جماعتیں مشاورت کے بعد اپنا جواب دیں گی۔
انہوں نے امید طاہر کی کہ تمام جماعتوں کےاتفاق سے فوجی عدالتوں میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے، پارلیمانی رہنما آئندہ اجلاس میں مشاورت کے بعد رائے دیں گے۔
اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حامد کا کہنا تھا کہ ترمیم میں ریاست کےخلاف جنگ اورتشدد کالفظ استعمال کیا گیا ہے، 23 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمانی رہنماؤں کو ارسال کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع، پارلیمانی اجلاس بے نتیجہ
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کےاصرار پر ترمیم میں ریاست کیخلاف سنگین اورپرتشدد کارروائیوں کے جملےکا اضافہ کیاہے۔
واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس وقت حکومت نے قومی اتفاق رائے سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں۔