سال دوہزار انیس میں پھیلنے والے کرونا وائرس نے ابتدا سے ہی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا سال دوہزار اکیس میں کرونا ویکسین آنے کے بعد کیسز میں کمی دیکھی گئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ کرونا وائرس اب ختم ہورہا ہے، مگر اچانک کرونا کرونا کی نئی لہر شروع ہوئی جو پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔
صحت کے ماہرین کے مطابق نئی لہر میں انفیکشن میں 95 فیصد متاثرہ افراد میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہورہی ہیں جو کہ کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ہے اس کے علاوہ لوگ عام بخار اور دیگر بیماریوں کی علامت سمجھ کرکے نظر انداز کر رہے ہیں جوکہ کرونا انفکیشن کا بڑا سبب بن رہی ہے۔
در حقیقت وائرس ہماری معلومات کے بغیر ہمارے جسموں کو متاثر کررہا ہے، ایسی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کرونا وائرس کی صحیح علامات کیا ہیں؟ ہمارے جسم میں ایسی کون سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے؟ ہمیں کورونا ٹیسٹ کے لیے کب جانا چاہئے؟ ان سوالات کے متعلق ماہرین کا کیا کہنا ہے؟
ماہرین کے مطابق موجودہ وقت میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی یہی تین وجوہات ہیں، اس طرح لوگ کرونا ٹیسٹ کروانے سے لیکر آئیسولیشن اور علاج کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
آنکھوں کا سرخ ہونا
عام طور پر آنکھوں کا لال ہونا، سوجن، خارش یا آنکھوں سے پانی آنے کی وجہ کو الرجی یا انفیکشن کو سمجھا جاتا ہے، ہم ان علامات کو بخار یا سردرد سے ہونے والی آنکھوں کی عام بیماری سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سر درد جیسی معمولی بیماریوں کے ساتھ ہونے والی سرخ آنکھ کووڈ۔19 کے انفیکشن کی وجہ بھی سے ہوسکتی ہے۔ لہذا اگر آپ کو ایسی علامات ہیں تو فوری طور پر کورونا ٹیسٹ کروائیں۔
بھوک کا احساس نا ہونا
بھوک کا احساس نہ ہونا اور طبیعت میں بے چینی کا ہونا پہلی نظر میں عام معلوم ہوسکتا ہے لیکن وبا کے پیش نظر جب کھانے کی عادات میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
چین میں کرونا کے ابتدائی مریضوں میں سے 48 فیصد مریضوں میں پیٹ کی مختلف بیماریوں کی علامات ظاہر ہوئیں، جیسے ڈائیریا، پیٹ میں درد، متلی، گیس کی تکلیف اور بھوک میں کمی سنگین علامات ہوسکتی ہے، مستقبل کے خطرات سے بچنے کے لیے شروع میں جانچ اور علاج کروانا بہتر ہے۔
تھکاوٹ
گھر یا دفتر میں کام کے بوجھ کی وجہ سے تھکن محسوس کرنا فطری بات ہے اور ایک دو دن میں ہماری تھکاوٹ بھی ختم ہوجاتی ہے، لیکن ضرورت سے زیادہ تھکاوٹ اور مستقل سستی ایک سنگین پریشانی کی علامت ہوسکتی ہے، ماہرین کے مطابق ان علامات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور جتنی جلدی ممکن ہو میڈیکل مشورے سے ان کی جانچ کروانی چاہیے، بہت سارے مریضوں نے نہ صرف انفیکشن کے دوران بلکہ کئی ماہ کی صحتیابی کے بعد بھی انتہائی تھکاوٹ کی شکایت کی ہے، اسی لیے ماہرین کے مشورے پر عمل کریں اور صحیح علاج حاصل کریں۔
بھولنے کی عادت میں اضافہ
کئی سائنسی مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا وائرس صرف پھیپھڑوں کو متاثر نہیں کرتا بلکہ جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتا ہے، حقیقت میں دماغ پر بھی کورونا وائرس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، توجہ میں کمی، بھولنے کی عادت میں اضافہ، اضطراب اور یکسوئی میں کمی جیسے علامات خطرے کی گھنٹی ہیں، ایسے علامات ظاہر ہونے پر ماہرین محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔